Book - حدیث 4167

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ التَّوَكُّلِ وَالْيَقِينِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَمُوتَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ

ترجمہ Book - حدیث 4167

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: توکل اور یقین حضرت جابر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر شخص کو اس حال میں موت آنی چاہیئے کہ وہ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو
تشریح : 1۔انسان کو اللہ کی رحمت کی امید اور اس کی ناراضی کا خوف ،دونوں کی ضرورت ہے۔امید اسے نیکیوں کی رغبت دلاتی ہے اور خوف اسے گناہ سے باز رکھتا ہے۔ 2۔زندگی میں امید پر خوف کا غلبہ رہنا چاہیے لیکن وفات کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ 3۔اللہ سے حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ امید رکھے کہ اس کی توفیق سےزندگی میں جو نیک کام ہوئے ہیں اللہ تعالی انھیں قبول فرمائے گا اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا۔ 4۔ امید کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی عادت ہو اور نیکیوں کی طرف رغبت نہ ہو۔ جب نصیحت کی جائے تو کہہ دے: اللہ بہت رحم کرنے والا ہے۔یہ امید کا غلط تصور ہے۔ 1۔انسان کو اللہ کی رحمت کی امید اور اس کی ناراضی کا خوف ،دونوں کی ضرورت ہے۔امید اسے نیکیوں کی رغبت دلاتی ہے اور خوف اسے گناہ سے باز رکھتا ہے۔ 2۔زندگی میں امید پر خوف کا غلبہ رہنا چاہیے لیکن وفات کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ 3۔اللہ سے حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ امید رکھے کہ اس کی توفیق سےزندگی میں جو نیک کام ہوئے ہیں اللہ تعالی انھیں قبول فرمائے گا اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا۔ 4۔ امید کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی عادت ہو اور نیکیوں کی طرف رغبت نہ ہو۔ جب نصیحت کی جائے تو کہہ دے: اللہ بہت رحم کرنے والا ہے۔یہ امید کا غلط تصور ہے۔