Book - حدیث 4152

كِتَابُ الزُّهْدِ بابُ ضِجَاعِ آلِ مُحَمَّدٍﷺ صحیح حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَهُمَا فِي خَمِيلٍ لَهُمَا وَالْخَمِيلُ الْقَطِيفَةُ الْبَيْضَاءُ مِنْ الصُّوفِ قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَّزَهُمَا بِهَا وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ

ترجمہ Book - حدیث 4152

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: آل محمدﷺ کےگھر والوں کابستر حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت علی اور فاطمہ ؓا کے ہاں تشریف لے گئے ۔ اس وقت ان دونوں نے ایک سفید اونی چادر لے رکھی تھی جو ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ نے عنایت فرمائی تھی ، نیز ایک اذخر کی گھاس بھراگدا دیاتھا اور مشکیزہ ۔
تشریح : 1۔ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کے موقع پر گھریلو استعمال کی کچھ چیزیں دی تھیں۔بعض لوگوں نے اس کو جہیز کے موجودہ رواج کی دلیل بنایا ہےجو درست نہیں۔اصل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب مفلس آدمی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدد کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ جب وہ جوان ہوئے تو نبی ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا ان سے نکاح کردیا۔اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لیے ضروری سامان مہیا کیا گیا ہے۔اور اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی مالی حالت اتنی پتلی تھی کہ جب ان کو کہا گیا کہ شب زفاف کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کوئی تحفہ دو تو انھوں نے کہا: میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی چادر ہی دے دو جو تمھارے پاس ہے۔ (سنن ابه داؤد النكاح باب في الرجل يدخل بامراته قبل ان ينقدها شيئاً حديث:٢١٢٥) حدیث کے الفاظ (جهز هما بها) بھی قابل غور ہیںاس کا ترجمہ جہیز دینا غلط ہے بلکہ اس کا مفہوم یا تو گھر بسانے کے لیے سامان مہیا کرنا ہے یا شب بسری کے لیے تیار کرنا۔اور یہ دوسرے معنی زیادہ صحیح ہیں۔تثینے کی ضمیر سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔اگر اس سے مراد مروجہ جہیز ہوتا تو ضمیر صرف مؤنث کی ہوتی (جهزها) نہ کہ(جهزهما) 2۔(وسادۃ) اس سرہانے کو کہتے ہیں جس پر سوتے وقت سر رکھا جاتا ہے۔اور اس گاؤ تکیے کو بھی کہتے ہیں جس سے بیٹھتے وقت ٹیک لگائی جاتی ہے۔حضرت فاطمہ کو ملنے والا تکیہ پہلی قسم کا بھی ہوسکتا ہےدوسری قسم کا بھی۔واللہ اعلم۔ 1۔ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کے موقع پر گھریلو استعمال کی کچھ چیزیں دی تھیں۔بعض لوگوں نے اس کو جہیز کے موجودہ رواج کی دلیل بنایا ہےجو درست نہیں۔اصل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب مفلس آدمی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدد کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ جب وہ جوان ہوئے تو نبی ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا ان سے نکاح کردیا۔اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لیے ضروری سامان مہیا کیا گیا ہے۔اور اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی مالی حالت اتنی پتلی تھی کہ جب ان کو کہا گیا کہ شب زفاف کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کوئی تحفہ دو تو انھوں نے کہا: میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی چادر ہی دے دو جو تمھارے پاس ہے۔ (سنن ابه داؤد النكاح باب في الرجل يدخل بامراته قبل ان ينقدها شيئاً حديث:٢١٢٥) حدیث کے الفاظ (جهز هما بها) بھی قابل غور ہیںاس کا ترجمہ جہیز دینا غلط ہے بلکہ اس کا مفہوم یا تو گھر بسانے کے لیے سامان مہیا کرنا ہے یا شب بسری کے لیے تیار کرنا۔اور یہ دوسرے معنی زیادہ صحیح ہیں۔تثینے کی ضمیر سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔اگر اس سے مراد مروجہ جہیز ہوتا تو ضمیر صرف مؤنث کی ہوتی (جهزها) نہ کہ(جهزهما) 2۔(وسادۃ) اس سرہانے کو کہتے ہیں جس پر سوتے وقت سر رکھا جاتا ہے۔اور اس گاؤ تکیے کو بھی کہتے ہیں جس سے بیٹھتے وقت ٹیک لگائی جاتی ہے۔حضرت فاطمہ کو ملنے والا تکیہ پہلی قسم کا بھی ہوسکتا ہےدوسری قسم کا بھی۔واللہ اعلم۔