Book - حدیث 4136

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابٌ فِي الْمُكْثِرِينَ صحیح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ تَعِسَ وَانْتَكَسَ وَإِذَا شِيكَ فَلَا انْتَقَشَ

ترجمہ Book - حدیث 4136

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: زیادہ مال رکھنےوالوں کابیان حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ہلاک ہوجائے دینار کابندہ، درہم کابندہ، اور چادر کابندہ ۔ ہلاک ہوجائے ، اوندھا ہوجائے ، اسے کانٹا لگے تونکالا نہ جائے’’۔
تشریح : 1۔دنیا کا لالچ مذموم ہے۔ 2۔جب محبت ونفرت کی بنیاد محض دنیوی مفاد پر ہوجائے تو خلوص باقی نہیں رہتا۔اس صورت میں خلیفۃالمسلمین یا اس کے نائب سے بیعت بھی اللہ کی رضا کے لیے اور اسلامی سلطنت کی حفاظت اور خدمت کے لیے نہیں ہوتیاس طرح یہ عظیم نیکی بھی تمام برکات سے محروم ہوکر برائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ 3۔ دینی جماعتوں اور تنظیموں سے تعلق اللہ کی رضا اور ثواب کے لیے ہونا چاہیے۔اسی نیت سے عہدہ اور ذمہ داری قبول کی جائےاگر محسوس ہو کہ محنت کرنے کے باوجود جماعت میں اہلیت تسلیم نہیں کی جارہی تو اکابر سے ناراض ہوکر جماعت سے الگ نہ ہوجائے۔ہاں اگر یہ محسوس کیا جائے کہ جماعت یا تنظیم کے عہدیدار صحیح انداز سے کام نہیں کررہے اور توجہ دلانے کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہیں تو خاموشی کے ساتھ تنظیم سے الگ ہوجائے۔ 4۔درہم و دینار کے بندے سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا کے مال ودولت کی اتنی خواہش رکھتا ہے کہ اس کی تمام سر گرمیوں کا محور حصول دولت بن کر رہ جاتا ہے۔اس طرح وہ دولت سے خدمت لینے کی بجائے دولت جمع کرنے اور سنبھالنے میں مصروف رہتا ہےگویا دولت اس کا آقا یا معبود ہے اور وہ غلام یا پجاری ۔ 5۔دولت کے پجاری کے لیے بد دعا کی گئی ہےکہ وہ تباہ ہوجائے۔منہ کے بل گرنے اور سر کے بل اوندھا ہوجانے سے یہی مراد ہے۔کانٹا نہ نکالےجانے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسارہے اور اس کی مدد اور نجات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔واللہ اعلم 1۔دنیا کا لالچ مذموم ہے۔ 2۔جب محبت ونفرت کی بنیاد محض دنیوی مفاد پر ہوجائے تو خلوص باقی نہیں رہتا۔اس صورت میں خلیفۃالمسلمین یا اس کے نائب سے بیعت بھی اللہ کی رضا کے لیے اور اسلامی سلطنت کی حفاظت اور خدمت کے لیے نہیں ہوتیاس طرح یہ عظیم نیکی بھی تمام برکات سے محروم ہوکر برائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ 3۔ دینی جماعتوں اور تنظیموں سے تعلق اللہ کی رضا اور ثواب کے لیے ہونا چاہیے۔اسی نیت سے عہدہ اور ذمہ داری قبول کی جائےاگر محسوس ہو کہ محنت کرنے کے باوجود جماعت میں اہلیت تسلیم نہیں کی جارہی تو اکابر سے ناراض ہوکر جماعت سے الگ نہ ہوجائے۔ہاں اگر یہ محسوس کیا جائے کہ جماعت یا تنظیم کے عہدیدار صحیح انداز سے کام نہیں کررہے اور توجہ دلانے کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہیں تو خاموشی کے ساتھ تنظیم سے الگ ہوجائے۔ 4۔درہم و دینار کے بندے سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا کے مال ودولت کی اتنی خواہش رکھتا ہے کہ اس کی تمام سر گرمیوں کا محور حصول دولت بن کر رہ جاتا ہے۔اس طرح وہ دولت سے خدمت لینے کی بجائے دولت جمع کرنے اور سنبھالنے میں مصروف رہتا ہےگویا دولت اس کا آقا یا معبود ہے اور وہ غلام یا پجاری ۔ 5۔دولت کے پجاری کے لیے بد دعا کی گئی ہےکہ وہ تباہ ہوجائے۔منہ کے بل گرنے اور سر کے بل اوندھا ہوجانے سے یہی مراد ہے۔کانٹا نہ نکالےجانے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسارہے اور اس کی مدد اور نجات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔واللہ اعلم