Book - حدیث 4111

كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَثَلُ الدُّنْيَا صحیح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُسْتَوْرِدُ بْنُ شَدَّادٍ قَالَ إِنِّي لَفِي الرَّكْبِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَى عَلَى سَخْلَةٍ مَنْبُوذَةٍ قَالَ فَقَالَ أَتُرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا أَوْ كَمَا قَالَ قَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا

ترجمہ Book - حدیث 4111

کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل باب: دنیا کی مثا ل حضرت مستورد بن شداد قرشی ؓ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا :میں ایک قافلے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ کاگذر ایک پھینکے ہوئے (مردہ )میمنے کے پاس سے ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :‘‘کیاتمہارے خیال میں یہ میمنا مالکوں کی نظر میں بے قدر ہے ؟’’ انھوں نے کہا :اللہ کے رسول !انھوں نے بے قدر سمجھ کر ہی پھینکا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !جتنا یہ میمنا مالکوں کی نظرمیں حقیر ہے ، اللہ کے ہاں دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے’’۔
تشریح : 1۔اللہ کے ہاں اصل اہمیت انسان کے اعمال کی ہے۔دنیا کے اسباب اگر نیکی کے کام میں استعمال کیے جائیں تو وہ انسان کے لیے مفید ہیں ورنہ مال ودولت یا جاہ و حشمت کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ 2۔دنیا کے اسباب کو جائز ذرائع سے حاصل کرنا چاہیےاور انھیں ایسے کام میں خرچ کرنا چاہیے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو، 3۔اللہ کی رضا اور انعامات کا اصل مقام جنت ہے۔اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی دولت کی کوئی قیمت نہیں۔ 1۔اللہ کے ہاں اصل اہمیت انسان کے اعمال کی ہے۔دنیا کے اسباب اگر نیکی کے کام میں استعمال کیے جائیں تو وہ انسان کے لیے مفید ہیں ورنہ مال ودولت یا جاہ و حشمت کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ 2۔دنیا کے اسباب کو جائز ذرائع سے حاصل کرنا چاہیےاور انھیں ایسے کام میں خرچ کرنا چاہیے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو، 3۔اللہ کی رضا اور انعامات کا اصل مقام جنت ہے۔اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی دولت کی کوئی قیمت نہیں۔