كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْهَمِّ بِالدُّنْيَا صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ قُلْتُ مَا بَعَثَ إِلَيْهِ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا لِشَيْءٍ سَأَلَ عَنْهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَاءَ سَمِعْنَاهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا هَمَّهُ فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ وَمَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ
کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل
باب: دنیا کی فکر کرنا
حضرت ابان بن عثمان ؓ علیہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:حضرت زید بن ثابت ؓ دوپہر کے وقت مروان (ؓ )کے پاس سے باہر نکلے ۔ میں نے کہا:انھوں نے اس وقت انھیں کوئی (اہم )مسئلہ دریافت کرنے ہی کے لئے بلایا ہوگا۔ میں نے زید ؓ سے پوچھا توانھوں نے کہا:انھوں نے ہم سے کچھ احادیث کے بارے میں دریافت کیاتھا (کہ وہ کس طرح ہیں ۔)جو ہم نےر سول اللہ ﷺ سے سنی تھیں ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:‘‘ جس شخص کامقصود حصولِ دنیاہو،اللہ تعالی ا س کے کام بکھیر دیتاہے اور اس کافقر اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتاہے اور اسے اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے لئے مقدر ہے اور جس کی نیت آخرت کاحصول ہو، اللہ تعالی اس کے کام مرتب کردیتاہے اور اس کے دل میں استغنا پیدافر دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہوکر اس کے پاس آتی ہے’’۔
تشریح :
1۔جو شخص دنیاوی مال و دولت اور جاہوحشمت کا طالب اور حریص ہوتا ہےوہ دنیا کے لیے بہت محنت کرتا ہے۔اسی جتنی بھی دولت ملے مزید کی حرص کی وجہ سے وہ مطمئن نہیں ہوتااس لیے مفلس آدمی کی طرح پریشان رہتا ہے۔
2۔حریص آدمیدنیا کمانے کے لیے کئی پروگرام شروع کرتا ہےاور چاہتا ہے کہ ہر ایک پر پوری توجہ دے اور اسے جلد سے جلد اس کی کوشش کے نتائج حاصل ہوں لیکن فطری طور پر انسان کئی امور کی طرف بیک وقت برابر توجہ نہیں دے سکتالہذا اسے اس کی حرص کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوتے۔اس طرح وہ دولت حاصل ہونے کے باوجود پریشان رہتا ہے۔
3۔آخرت کی طرف توجہ کرنے سے دنیا کی اہمیت کم ہوجاتی ہے لہذا قناعت کی دولت حاصل ہوجاتی ہےاور بندہ مطمئن اور خوش کن زندگی گزارتا ہے۔
4۔آخرت کو مقصود بنالینے سے دنیا کے معاملات میں بھی نطم وضبط پیدا ہوجاتا ہے جس سے کاروبار میں بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں اور رزق میں برکت ہوتی ہے،
5۔اللہ کی رضا کو مد نظر رکھنے والے کے دنیاوی معاملات بھی سلجھ جاتے ہیں اور حرص ختم ہوکر استغناء بھی پیدا ہوجاتا ہے
6۔اللہ تعالی نے انسان کے لیے جو رزق مقدر کر رکھا ہے وہ حلال ذرائع اختیار کرنے سے بھی مل جاتا ہےلہذا ناجائز طریقے اختیار کرنے سے سوائے پریشانیوںض کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
1۔جو شخص دنیاوی مال و دولت اور جاہوحشمت کا طالب اور حریص ہوتا ہےوہ دنیا کے لیے بہت محنت کرتا ہے۔اسی جتنی بھی دولت ملے مزید کی حرص کی وجہ سے وہ مطمئن نہیں ہوتااس لیے مفلس آدمی کی طرح پریشان رہتا ہے۔
2۔حریص آدمیدنیا کمانے کے لیے کئی پروگرام شروع کرتا ہےاور چاہتا ہے کہ ہر ایک پر پوری توجہ دے اور اسے جلد سے جلد اس کی کوشش کے نتائج حاصل ہوں لیکن فطری طور پر انسان کئی امور کی طرف بیک وقت برابر توجہ نہیں دے سکتالہذا اسے اس کی حرص کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوتے۔اس طرح وہ دولت حاصل ہونے کے باوجود پریشان رہتا ہے۔
3۔آخرت کی طرف توجہ کرنے سے دنیا کی اہمیت کم ہوجاتی ہے لہذا قناعت کی دولت حاصل ہوجاتی ہےاور بندہ مطمئن اور خوش کن زندگی گزارتا ہے۔
4۔آخرت کو مقصود بنالینے سے دنیا کے معاملات میں بھی نطم وضبط پیدا ہوجاتا ہے جس سے کاروبار میں بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں اور رزق میں برکت ہوتی ہے،
5۔اللہ کی رضا کو مد نظر رکھنے والے کے دنیاوی معاملات بھی سلجھ جاتے ہیں اور حرص ختم ہوکر استغناء بھی پیدا ہوجاتا ہے
6۔اللہ تعالی نے انسان کے لیے جو رزق مقدر کر رکھا ہے وہ حلال ذرائع اختیار کرنے سے بھی مل جاتا ہےلہذا ناجائز طریقے اختیار کرنے سے سوائے پریشانیوںض کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔