كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْهَمِّ بِالدُّنْيَا حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ نَزَلْتُ عَلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ طَعِينٌ فَأَتَاهُ مُعَاوِيَةُ يَعُودُهُ فَبَكَى أَبُو هَاشِمٍ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ مَا يُبْكِيكَ أَيْ خَالِ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ عَلَى الدُّنْيَا فَقَدْ ذَهَبَ صَفْوُهَا قَالَ عَلَى كُلٍّ لَا وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَبِعْتُهُ قَالَ إِنَّكَ لَعَلَّكَ تُدْرِكُ أَمْوَالًا تُقْسَمُ بَيْنَ أَقْوَامٍ وَإِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ ذَلِكَ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَدْرَكْتُ فَجَمَعْتُ
کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل
باب: دنیا کی فکر کرنا
حضرت سمرہ بن سہم ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا:میں حضرت ابو ہاشم خالد بن عتبہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب وہ (نیزے سے )زخمی ہوگئے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ ان کی عیادت کوتشریف لائے توابو ہاشم ؓ روپڑے ۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا :ماموں جان !آپ کیوں روتےہیں ؟کیادرد زیادہ پریشان کررہاہے یا دنیا (کے چھوٹنے )پرغمگین ہیں ، اس (زندگی)کاعمدہ حصہ توگزر گیا ؟(اب تونک حصہ ہی باقی ہے جس میں دکھ تکلیفیں زیادہ ہوتی ہیں ۔)حضرت ابو ہاشم ؓ نے فرمایا :ان میں سے کسی بات پرنہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک وعدہ لیاتھا، کاش میں اس کے مطابق چلا ہوتا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :‘‘ شاید تم کو بہت اموال ملیں جو لوگوں میں تقسیم کیے جارہے ہوں ۔(ان کالالچ نہ کرنا۔)تمہارے لئے تواس میں سے ایک خادم اور ایک سواری کاجانور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لئے)کافی ہے’’۔
مجھے ملا اور میں نے جمع کر لیا۔
تشریح :
1۔ بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا مسلمان پر حق ہے۔
2۔عیادت کے موقع پر مریض کی پریشانی مولوم کر کے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
3۔ضرورت سے زیادہ مال ملے تو جمع کرنے کی بجائے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔
4۔اگر حلال طریقے سے مال جمع ہوجائے اور نیکی کی راہوں میں خرچ کرنے کے باوجود دولت باقی رہے تو یہ گناہ نہیں۔لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے اپنے اعلیٰ مقام کے منافی سمجھ کر افسوس کرتے تھے۔
1۔ بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا مسلمان پر حق ہے۔
2۔عیادت کے موقع پر مریض کی پریشانی مولوم کر کے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
3۔ضرورت سے زیادہ مال ملے تو جمع کرنے کی بجائے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔
4۔اگر حلال طریقے سے مال جمع ہوجائے اور نیکی کی راہوں میں خرچ کرنے کے باوجود دولت باقی رہے تو یہ گناہ نہیں۔لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے اپنے اعلیٰ مقام کے منافی سمجھ کر افسوس کرتے تھے۔