كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا ضعیف حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرٍو الْقُرَشِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّوكَ
کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل
باب: دنیا سے بےرغبتی
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا :ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:اللہ کے رسول !مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں وہ کروں تواللہ مجھ سے محبت کرے اور لوگ مجھے پسند کریں ۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :‘‘ دنیاسے بے رغبت ہوجاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے ’’۔
تشریح :
1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیاہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔شیخ البانی ؒ نے اس حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد اور متابعات کا تذ کرہ کیا ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کی باوجود قابل عمل ہے۔واللہ اعلم ۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے( الصحيحة ٢/٦٢٤ّ’٦٢٨’رقم:٩٤٤) زہد کا مطلب یہ نہیں کہ انسان دنیا والوں سے الگ تھلگ ہوجائے۔یہ رہبانیت ہے جو اسلامی طریقہ نہیں ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ حلال آمدنی پر کفایت کی جائے 'خواہ کم ہو۔اور حرام کمائی کی راہیں تلاش نہ کی جائیں۔
3۔یہ امید رکھنا کہ دوسرے مجھے کچھ دیں'حرص کا اظہار ہے۔دوسروں کے مال سے بے نیازمی'زہد وقناعت میں شامل ہے۔
4۔انسانوں سے طمع رکھنے سے انسان ذلیل ہوتا ہےاور قناعت سے ان کی نظروں میں محبوب و معزز بن جاتا ہے،
5۔اللہ تعالی سے امید رکھنا اور حلال روزمی تلاش کرنا زہد کے منافی نہیں۔
6۔اللہ تعالی سے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی ضرورت بھی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ اسباب اس کے اختیار میں ہیں لیکن آخرت کی طلب زیادہ ہونی چاہیے۔
1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیاہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔شیخ البانی ؒ نے اس حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد اور متابعات کا تذ کرہ کیا ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کی باوجود قابل عمل ہے۔واللہ اعلم ۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے( الصحيحة ٢/٦٢٤ّ’٦٢٨’رقم:٩٤٤) زہد کا مطلب یہ نہیں کہ انسان دنیا والوں سے الگ تھلگ ہوجائے۔یہ رہبانیت ہے جو اسلامی طریقہ نہیں ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ حلال آمدنی پر کفایت کی جائے 'خواہ کم ہو۔اور حرام کمائی کی راہیں تلاش نہ کی جائیں۔
3۔یہ امید رکھنا کہ دوسرے مجھے کچھ دیں'حرص کا اظہار ہے۔دوسروں کے مال سے بے نیازمی'زہد وقناعت میں شامل ہے۔
4۔انسانوں سے طمع رکھنے سے انسان ذلیل ہوتا ہےاور قناعت سے ان کی نظروں میں محبوب و معزز بن جاتا ہے،
5۔اللہ تعالی سے امید رکھنا اور حلال روزمی تلاش کرنا زہد کے منافی نہیں۔
6۔اللہ تعالی سے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی ضرورت بھی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ اسباب اس کے اختیار میں ہیں لیکن آخرت کی طلب زیادہ ہونی چاہیے۔