Book - حدیث 4053

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ ذَهَابِ الْأَمَانَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ قَالَ الطَّنَافِسِيُّ يَعْنِي وَسْطَ قُلُوبِ الرِّجَالِ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمْنَا مِنْ الْقُرْآنِ وَعَلِمْنَا مِنْ السُّنَّةِ ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا فَقَالَ يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُرْفَعُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الْوَكْتِ وَيَنَامُ النَّوْمَةَ فَتُنْزَعُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ ثُمَّ أَخَذَ حُذَيْفَةُ كَفًّا مِنْ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى سَاقِهِ قَالَ فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ حَتَّى يُقَالَ إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا وَحَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ مَا أَعْقَلَهُ وَأَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَلَسْتُ أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ إِسْلَامُهُ وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا

ترجمہ Book - حدیث 4053

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: دیانت داری کا ختم ہو جا نا حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو باتیں بتائی تھیں۔ ان دونوں میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی (کہ وہ واقع ہو گئی ہے) اور دوسری (کے واقع ہونے) کا مجھے انتظار ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: امانت (دیانت داری کی صفت) لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری۔ ...(حدیث کے راوی علی بن محمد) طنافسی نے کہا: جذر قلوب الرجال سے مراد وسط قلوب الرجال ہے، یعنی دل کے درمیان میں... اور قرآن نازل ہوا، ہم نے قرآن بھی سیکھا اور سنت بھی سیکھی (چنانچہ یہ خوبی مزید پختہ ہو گئی۔) پھر آپ ﷺ نے ہمیں اس کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کیا اور فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھ جائے گی، اس کا ایک نشان رہ جائے گا، جیسے ایک نقطے کا نشان۔ پھر وہ سوئے گا تو (باقی ماندہ) امامنت بھی اس کے دل سے اٹھ جائے گی، تو اس کا اثر ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تیرے پاؤں پر انگارہ گر پڑے اور وہ پھول جائے۔ تجھے وہ ابھرا ہوا نظر آتا ہے، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ (یہ کہتے ہوئے) حضرت حذیفہ ؓ نے مٹھی بھر کنکریاں لے کر اپنی پنڈلی پر گرائیں۔ آپ (رسول اللہ ﷺ ) نے فرمایا: پھر لوگ ایک دوسرے سے لین دین کیا کریں گے اور کوئی بھی امانت ادا نہیں کرے گا حتی کہ کہا جائے گا: فلاں قبیلے میں ایک دیانت دار آدمی بھی ہے۔ اور حتی کہ ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے گا: وہ کتنا عقل مند ہے! کتنا با ہمت ہے! کتنا سمجھ دار ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے ایک دانے جتنا بھی ایمان نہیں ہو گا۔ اور (حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: ) مجھ پر ایک وقت وہ تھا کہ مجھے کسی سے لین دین کرنے میں کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ (مجھے یقین ہوتا تھا کہ) اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا ایمان اسے میرے پاس (میرا حق ادا کرنے کے لیے) واپس لے آئے گا، اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا عامل (ذمہ دار) اسے میرے پاس لے آئے گا۔ لیکن آج تو (یہ حالت ہے کہ) میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید و فروخت نہیں کرتا۔
تشریح : 1۔۔دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔ 2۔سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا'ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔ 3۔آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔ اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے ۔ 4۔غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔ 5۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔ 1۔۔دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔ 2۔سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا'ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔ 3۔آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔ اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے ۔ 4۔غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔ 5۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔