Book - حدیث 4046

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ حسن صحيح - دون قوله: " من كل عشرة تسعة " فإنه شاذ والمحفوظ " من كل مائة تسعة وتسعون " حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسُرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَيَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ عَشَرَةٍ تِسْعَةٌ»

ترجمہ Book - حدیث 4046

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: علاماتِ قیامت کا بیان حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہوگا لوگو اس کے لیے آپس میں لڑیں گے اور ہر دس میں سے نو افراد قتل ہو جائیں گے۔
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے ایک جملے کے سوا باقی روایت کو حسن قراردیا ہے۔شیخ البانیؒ اور دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت ( من كل عشرة تسعة) دس میں سے نو افراد۔والے کے جملے کے علاوہ حسن صحیح ہے۔کیونکہ مذکورہ جملہ شاذ ہے جبکہ محفوظ الفاظ (من كل مائة تسعة و تسعون) ہر سو میں سے نناوے ہیں۔علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اس جملے کو شاذ قراردیا ہے۔لہذا مذکورہ وایت اس جملے کے سوا حسن بن جاتی ہے۔والله اعلمّ دیکھیے:(صحيح سنن ابن ماجه للالباني رقم :٣٢٨٦ وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم:٤-٤٦) 2۔دریائے فرات ترکی سے شروع ہوکرشام عراق میں سے گزرتا ہوا خلیج فارس میں گرتا ہے۔ترکی کا وہ حصہ بھی اس سے سیراب ہوتا ہے جہاں کردستان کے نام سے الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔اور عراق کا وہ حصہ جہاں یہ سمندر میں گرتا ہے۔ایران اور کویت دونوں کی سرحدوں کے قریب ہے۔اس لیے اس علاقے میں معدنی دولت کاخزانہ ظاہر ہونے پر علاقے کے ممالک میں جنگ کا چھڑنا ناگزیر ہے۔اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک کی سلامتی اور تحفظ کے نام پر بڑے ملک(امریکہ، روس اور چین وغیرہ) بھی اس دولت پر قبضہ جمانے کے لیے شریک ہوسکتے ہیں۔ 3۔اس واقعہ کی پیشگی خبر دینے میں یہ حکمت ہے کہ سمجھ دار آدمی دولت کا لالچ نہ کریں اور جنگ میں شریک ہوکر جانیں نہ گنوائیں باالخصوص یہ جنگ اتنی شدید اور خطرناک ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ ہالک ہوجائیں گے اور صرف ایک فی صد جنگجو زندہ بچیں گے۔ان کا حال بھی زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے قابل رشک نہیں ہوگا۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے ایک جملے کے سوا باقی روایت کو حسن قراردیا ہے۔شیخ البانیؒ اور دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت ( من كل عشرة تسعة) دس میں سے نو افراد۔والے کے جملے کے علاوہ حسن صحیح ہے۔کیونکہ مذکورہ جملہ شاذ ہے جبکہ محفوظ الفاظ (من كل مائة تسعة و تسعون) ہر سو میں سے نناوے ہیں۔علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اس جملے کو شاذ قراردیا ہے۔لہذا مذکورہ وایت اس جملے کے سوا حسن بن جاتی ہے۔والله اعلمّ دیکھیے:(صحيح سنن ابن ماجه للالباني رقم :٣٢٨٦ وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم:٤-٤٦) 2۔دریائے فرات ترکی سے شروع ہوکرشام عراق میں سے گزرتا ہوا خلیج فارس میں گرتا ہے۔ترکی کا وہ حصہ بھی اس سے سیراب ہوتا ہے جہاں کردستان کے نام سے الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔اور عراق کا وہ حصہ جہاں یہ سمندر میں گرتا ہے۔ایران اور کویت دونوں کی سرحدوں کے قریب ہے۔اس لیے اس علاقے میں معدنی دولت کاخزانہ ظاہر ہونے پر علاقے کے ممالک میں جنگ کا چھڑنا ناگزیر ہے۔اس کے ساتھ ہی علاقے کے ممالک کی سلامتی اور تحفظ کے نام پر بڑے ملک(امریکہ، روس اور چین وغیرہ) بھی اس دولت پر قبضہ جمانے کے لیے شریک ہوسکتے ہیں۔ 3۔اس واقعہ کی پیشگی خبر دینے میں یہ حکمت ہے کہ سمجھ دار آدمی دولت کا لالچ نہ کریں اور جنگ میں شریک ہوکر جانیں نہ گنوائیں باالخصوص یہ جنگ اتنی شدید اور خطرناک ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ ہالک ہوجائیں گے اور صرف ایک فی صد جنگجو زندہ بچیں گے۔ان کا حال بھی زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے قابل رشک نہیں ہوگا۔