كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ صحیح حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ، إِذْ قَالَ: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى، قَالَ: أَوَلَمْ تُؤْمِنْ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي، وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: مصیبت پر صبر کا بیان
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں جب انہوں نے فرمایا: (رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِیْ) میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو ایمان نہیں لایا؟ ابراہیم نے کہا: کیوں نہیں؟ لیکن (سوال اس لیے کیا ہے) تا کہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔ اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط علیہ السلام پر حم فرمائے! وہ مضبوط سہارے کی پناہ لے رہے تھے۔ اور اگر میں قید میں اتنا عرصہ رہتا جنتا عرصہ حضرت یوسف علیہ السلام رہے تو میں بلانے والے کی بات مان لیتا۔
تشریح :
1۔انبیاء کرام علیہم السلام کا ایمان سب سے کامل ہوتا ہے۔بعض اوقات اللہ تعالی انھیں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرادیتا ہے جو دوسروں کے لیے غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔حضرت ابراہیم علیہم السلام نے مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہا تو یہ شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ علم الیقین سے عین الیقین کے درجے تک ترقی کریں۔
2۔ہم زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اس میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہم السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرادیا ہے۔
3۔حضرت لوط علیہم السلام نے بدرجہ اولی شک سے برتر ہیں۔اس میں ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد زندگی کا مشاہدہ کرادیا۔
3۔حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مضبوط دنیوی سہارا ہوتا تو تم مجھ سے حیا ساز مطالبہ نہ کرتے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت لوط علیہم السلام کو اللہ تعالی پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی اخلاقی پستی کا اظہار ہے کہ اگر میرا مضبوط دنیوی سہارا موجود ہوتا تو تم ان افراد کے ڈر سے اس بد تمیزی کی جرات نہ کرتے لیکن تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔یرا اعتماد اللہ تعالی پر ہے جو تمہیں انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے سکتا ہے۔
4۔حضرت یوسف علیہم السلام کو اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ وہ ایک جرم کے ارتکاب سے انکار کررہے تھے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔جب حکمرانوں پر ان کا خلوص سچائی اور ان کے کردار کی عظمت واضح ہوگئی اور انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ آنجناب کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو قاصد رہائی کا حکم نامہ لے کر جیل آیا،اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ انھوں نے اس وقت تک جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک انکی بے گناہی باقاعدہ ثابت نہ ہوجائے۔اور مجرم ( عزیز مصر کی بیوی) کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔
5۔رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کیفیت میرے ساتھ پیش آتی تو میں اس وقت جیل سے باہر آجاتا اور اللہ کی رحمت سے امید رکھتا کہ وہ کسی اور انداز میں میری برات کا اظہار فرمادے گا۔اس ارشاد کا مقصد حضرت یوسف علیہ السلام کی استقامت اور ان کے صبر کی تعریف ہے۔
6۔خاتم النبین ﷺ کا مقام تمام انبیاء کرام سے بلند و برتر ہے لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام کے کردار کے روشن پہلو بھی لائق تحسین ہیں۔ان کی اہمیت وعظمت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔
7۔دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف بھی عظمت کردار کا ایک پہلو ہے۔علمائے کرام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کریں۔ان خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریںاور ان سے محبت رکھیں۔ جس طرح ان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں ان اچھے کاموں کی تعریف اور ان میں تعاون بھی کریں۔ خواہ متعلقہ فرد کا تعلق ان کی پارٹی ؛ تنظیم جماعت اور مسلک سے نہ ہو۔
1۔انبیاء کرام علیہم السلام کا ایمان سب سے کامل ہوتا ہے۔بعض اوقات اللہ تعالی انھیں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرادیتا ہے جو دوسروں کے لیے غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔حضرت ابراہیم علیہم السلام نے مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہا تو یہ شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ علم الیقین سے عین الیقین کے درجے تک ترقی کریں۔
2۔ہم زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اس میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہم السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرادیا ہے۔
3۔حضرت لوط علیہم السلام نے بدرجہ اولی شک سے برتر ہیں۔اس میں ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد زندگی کا مشاہدہ کرادیا۔
3۔حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مضبوط دنیوی سہارا ہوتا تو تم مجھ سے حیا ساز مطالبہ نہ کرتے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت لوط علیہم السلام کو اللہ تعالی پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی اخلاقی پستی کا اظہار ہے کہ اگر میرا مضبوط دنیوی سہارا موجود ہوتا تو تم ان افراد کے ڈر سے اس بد تمیزی کی جرات نہ کرتے لیکن تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔یرا اعتماد اللہ تعالی پر ہے جو تمہیں انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے سکتا ہے۔
4۔حضرت یوسف علیہم السلام کو اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ وہ ایک جرم کے ارتکاب سے انکار کررہے تھے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔جب حکمرانوں پر ان کا خلوص سچائی اور ان کے کردار کی عظمت واضح ہوگئی اور انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ آنجناب کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو قاصد رہائی کا حکم نامہ لے کر جیل آیا،اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ انھوں نے اس وقت تک جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک انکی بے گناہی باقاعدہ ثابت نہ ہوجائے۔اور مجرم ( عزیز مصر کی بیوی) کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔
5۔رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کیفیت میرے ساتھ پیش آتی تو میں اس وقت جیل سے باہر آجاتا اور اللہ کی رحمت سے امید رکھتا کہ وہ کسی اور انداز میں میری برات کا اظہار فرمادے گا۔اس ارشاد کا مقصد حضرت یوسف علیہ السلام کی استقامت اور ان کے صبر کی تعریف ہے۔
6۔خاتم النبین ﷺ کا مقام تمام انبیاء کرام سے بلند و برتر ہے لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام کے کردار کے روشن پہلو بھی لائق تحسین ہیں۔ان کی اہمیت وعظمت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔
7۔دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف بھی عظمت کردار کا ایک پہلو ہے۔علمائے کرام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کریں۔ان خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریںاور ان سے محبت رکھیں۔ جس طرح ان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں ان اچھے کاموں کی تعریف اور ان میں تعاون بھی کریں۔ خواہ متعلقہ فرد کا تعلق ان کی پارٹی ؛ تنظیم جماعت اور مسلک سے نہ ہو۔