كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْعُقُوبَاتِ حسن حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ: لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا، وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ، وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: سزاؤں کا بیان
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجروں کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گڑے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (بری چیزیں) تم تک پہنچیں۔
جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔
جب وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، ان کو قحط سالی، روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔
جب وہ اپنے مالوں کی زکاۃ دینا بند کرتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔
جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کردیے جاتے ہیں، وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔
تشریح :
1۔مصائب وتکالیف کے ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ روحانی اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔اگر عقائد واخلاق کی ان خرابیوں سے پرہیز کیا جائے تو اللہ تعالی ظاہری اسباب کو تبدیل فرمادیتا ہے۔
2۔بے حیائی کے نتیجے میں آتشک اور سوزاک جیسی بیماریاں پیدا ہوئیں۔ پھر ایڈز اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کی بیماریاں سامنے آگئیں۔کوئی معاشرہ بے حیائی سے جتنا محفوظ ہے،اسی قدر اس میں یہ بیماریاں کم ہیں۔
3۔ناپ تول میں کمی لالچ اور حرص کی وجہ ہوتی ہے۔اس سے دوسراوں کا حق مارا جاتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مالی نقصان اور قحط کی صورت ملتی ہے۔
4۔زکاۃ مال میں برکت کا باعث ہے۔جب معاشرے میں زکاۃ دینے والے کم ہوجائیں تو اس کی سزا میں معاشرے کا رزق روک لیاجاتا ہے۔
5۔دوسروں پر رحم کرنے والے پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے۔اس کے برعکس دوسروں کو تکلیف پہنچانے والا۔ان کی مدد نہ کرنے والا اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا اللہ کے رحم کا مستحق نہیں رہتا۔
6۔اللہ اور اس کے رسول کے عہد سے مراد اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے جائز حقوق کا تحفظ ہے۔اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے والا اللہ کی عبادت اور اس کے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔اس عہد کی خلاف ورزی بھی قوم کو سزا کا مستحق بنا دیتی ہے۔
7۔شریعت پر عمل کرنے سے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں جس کے برعکس دنیوی مفاد کے لیے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے خود غرضی کی عادت پختہ ہوتی ہے اور ایثار اور ہمدردی کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں اس کے نتیجے میں معمولی بات پر اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
8۔قومی صحت کی حفاظت کے لیے ملک سے فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً فحش لٹریچر ساز،رقص،فلمیں ، مرد وعورت کا اختلاط ،ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کے بے ہودہ پروگرام وغیرہ کا سدباب ضروری ہے۔
9۔معاشی آسودگی اور اقتصادی ترقی کے لیے ملک میں دیانت داری کا چلن ضروری ہے۔
10۔پانی کی قلت موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔اگر زکاۃ کے نظام کوصحیح بنیادوں پر قائم کرکے اسے شریعت کے مطابق چلایا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ملکی دفاع کی مضبوطیکے لیےعقیدہ توحید کی توضیح و تبلیغ اور توحید کے صحیح تصور کو پختہ کرنا چاہیے۔تب اللہ کی وہ مدد آئے گی جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیاہے۔فرقہ پارٹی، علاقے، زبان اور قبیلے کی بنیاد پر انتشار دور حاضر کا بہت بڑا المیہ ہے۔اس کا علاج ہر سطح پر شریعت کا مکمل نفاذ ہے۔
1۔مصائب وتکالیف کے ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ روحانی اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔اگر عقائد واخلاق کی ان خرابیوں سے پرہیز کیا جائے تو اللہ تعالی ظاہری اسباب کو تبدیل فرمادیتا ہے۔
2۔بے حیائی کے نتیجے میں آتشک اور سوزاک جیسی بیماریاں پیدا ہوئیں۔ پھر ایڈز اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کی بیماریاں سامنے آگئیں۔کوئی معاشرہ بے حیائی سے جتنا محفوظ ہے،اسی قدر اس میں یہ بیماریاں کم ہیں۔
3۔ناپ تول میں کمی لالچ اور حرص کی وجہ ہوتی ہے۔اس سے دوسراوں کا حق مارا جاتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مالی نقصان اور قحط کی صورت ملتی ہے۔
4۔زکاۃ مال میں برکت کا باعث ہے۔جب معاشرے میں زکاۃ دینے والے کم ہوجائیں تو اس کی سزا میں معاشرے کا رزق روک لیاجاتا ہے۔
5۔دوسروں پر رحم کرنے والے پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے۔اس کے برعکس دوسروں کو تکلیف پہنچانے والا۔ان کی مدد نہ کرنے والا اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا اللہ کے رحم کا مستحق نہیں رہتا۔
6۔اللہ اور اس کے رسول کے عہد سے مراد اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے جائز حقوق کا تحفظ ہے۔اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے والا اللہ کی عبادت اور اس کے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔اس عہد کی خلاف ورزی بھی قوم کو سزا کا مستحق بنا دیتی ہے۔
7۔شریعت پر عمل کرنے سے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں جس کے برعکس دنیوی مفاد کے لیے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے خود غرضی کی عادت پختہ ہوتی ہے اور ایثار اور ہمدردی کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں اس کے نتیجے میں معمولی بات پر اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
8۔قومی صحت کی حفاظت کے لیے ملک سے فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً فحش لٹریچر ساز،رقص،فلمیں ، مرد وعورت کا اختلاط ،ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کے بے ہودہ پروگرام وغیرہ کا سدباب ضروری ہے۔
9۔معاشی آسودگی اور اقتصادی ترقی کے لیے ملک میں دیانت داری کا چلن ضروری ہے۔
10۔پانی کی قلت موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔اگر زکاۃ کے نظام کوصحیح بنیادوں پر قائم کرکے اسے شریعت کے مطابق چلایا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ملکی دفاع کی مضبوطیکے لیےعقیدہ توحید کی توضیح و تبلیغ اور توحید کے صحیح تصور کو پختہ کرنا چاہیے۔تب اللہ کی وہ مدد آئے گی جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیاہے۔فرقہ پارٹی، علاقے، زبان اور قبیلے کی بنیاد پر انتشار دور حاضر کا بہت بڑا المیہ ہے۔اس کا علاج ہر سطح پر شریعت کا مکمل نفاذ ہے۔