Book - حدیث 4016

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ} [المائدة: 105] حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جُنْدُبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ» ، قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ: «يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُهُ»

ترجمہ Book - حدیث 4016

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: فرمانِ باری تعالیٰ ’ مومنو! اپنی جانیں بچاؤ‘ کا مطلب حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسی آزمائش میں نہ پڑے جس میں پورا اترنے کی طاقت نہیں۔
تشریح : 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےجبکہ دیگر محققین سے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے۔شیخ البانیؒ نے مذکورہ حدیث پر تفصیلاً بحث کرتے ہوئے اسے حسن قراردیا ہے اور انھی کی رائےاقرب الی الصلوب معلوم ہوتی ہے۔والله اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحيحه للالباني رقم:٦١٣) بنا بریں ایسی ذمہ داری اٹھانے والے کو قصور وار سمجھتے ہیں اس طرح اس کی عزت خوامخواہ کم ہوجاتی ہے۔ 2۔بعض علماء مسجد ومدرسہ یا انجمن کے انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ ان میں علمی صلاحیت تو ہوتی ہے،انتظامی صلاحیت نہیں ہوتی ۔بعض اوقات خود مسجد یا مدرسہ کے متعلقین یہ تصور کرلیتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے عالم ہیں،لہذا انتظام اچھے طریقے سے چلائیں گے۔اس صورت میں ایسی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہیے جس کے بارے میں یقین ہوکہ اسے نبھانا مشکل ہے۔ 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےجبکہ دیگر محققین سے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے۔شیخ البانیؒ نے مذکورہ حدیث پر تفصیلاً بحث کرتے ہوئے اسے حسن قراردیا ہے اور انھی کی رائےاقرب الی الصلوب معلوم ہوتی ہے۔والله اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحيحه للالباني رقم:٦١٣) بنا بریں ایسی ذمہ داری اٹھانے والے کو قصور وار سمجھتے ہیں اس طرح اس کی عزت خوامخواہ کم ہوجاتی ہے۔ 2۔بعض علماء مسجد ومدرسہ یا انجمن کے انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ ان میں علمی صلاحیت تو ہوتی ہے،انتظامی صلاحیت نہیں ہوتی ۔بعض اوقات خود مسجد یا مدرسہ کے متعلقین یہ تصور کرلیتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے عالم ہیں،لہذا انتظام اچھے طریقے سے چلائیں گے۔اس صورت میں ایسی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہیے جس کے بارے میں یقین ہوکہ اسے نبھانا مشکل ہے۔