كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة: 105] ، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ لَا يُغَيِّرُونَهُ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ» ، قَالَ أَبُو أُسَامَةَ مَرَّةً أُخْرَى: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: نیکی کا حکم دینا اور برائی سےروکنا
حضرت قیس بن ابو حازم ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ) اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو سیدھا رکھو۔ جب تم ہدایت پر ہوتو گمراہ لوگ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ اور ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرمارہے تھے: لوگ جب برائی کو دیکھیں اور اسے ختم نہ کریں (اس سے منع نہ کریں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔
حدیث کے راوی ابو اسامہ نے دوسری مرتبہ روایت بیان کرتے ہوئے کہا: (حضرت ابوبکر ؓ نے کہا) میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپؐ فرمارہے تھے۔
تشریح :
1۔عام لوگ مذکورہ آیت کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ انسان خود نیکی پر قائم رہے دوسروں کی گمراہی سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔نہ اس کے بارے میں باز پرس ہی ہوگی لہذا کسی کو گناہ سے روکنے کی کیا ضرورت ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واضح فرمادیا کہ آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپکو سنبھال کر رکھو تاکہ گمراہوں کی گمراہی کا اثر تم پر بھی نہ ہوجائے۔لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے اور گناہوں سے روکتے رہو ورنہ خود ان سے متاثر ہوکر گمراہ ہوجاؤ گے۔علاوہ ازیں لوگوں کو برائی سے روکنا نیکی پر قائم رہنے کا ایک لازمی حصہ ہےاس میں تساہل نیکی کے راستے سے انحراف ہے جو غضب الہی کا باعث بن سکتا ہے۔
2۔کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا علم زیادہ وسیع اور گہراتھا۔
3۔ ضطبے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وضاحت اور صحیح فہم بیان کرنا چاہیے۔
1۔عام لوگ مذکورہ آیت کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ انسان خود نیکی پر قائم رہے دوسروں کی گمراہی سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔نہ اس کے بارے میں باز پرس ہی ہوگی لہذا کسی کو گناہ سے روکنے کی کیا ضرورت ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واضح فرمادیا کہ آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپکو سنبھال کر رکھو تاکہ گمراہوں کی گمراہی کا اثر تم پر بھی نہ ہوجائے۔لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے اور گناہوں سے روکتے رہو ورنہ خود ان سے متاثر ہوکر گمراہ ہوجاؤ گے۔علاوہ ازیں لوگوں کو برائی سے روکنا نیکی پر قائم رہنے کا ایک لازمی حصہ ہےاس میں تساہل نیکی کے راستے سے انحراف ہے جو غضب الہی کا باعث بن سکتا ہے۔
2۔کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا علم زیادہ وسیع اور گہراتھا۔
3۔ ضطبے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وضاحت اور صحیح فہم بیان کرنا چاہیے۔