كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ فِتْنَةِ النِّسَاءِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ، وَأَكْثِرْنَ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ» ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ: وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: «تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ» ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: أَمَّا نُقْصَانِ الْعَقْلِ: فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ، فَهَذَا مِنْ نُقْصَانِ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِيَ مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ، فَهَذَا مِنْ نُقْصَانِ الدِّينِ
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: عورتوں کا فتنہ
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہص نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو۔ میں نے جہنم میں تمہاری تعداد سے سے زیادہ دیکھی ہے۔ ایک عقل مند خاتون نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے کہ جہنم میں ہماری تعداد زیادہ ہے؟ آپ نے فرمایا: تم (گالی گلوچ اور) لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور رفیق حیات کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے نہیں دیکھا کہ عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود کوئی چیزعقل مند آدمی پر تم سے زیادہ غالب آتی ہو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! عقل اور دین کا نقص کون سا ہے؟ فرمایا: عقل کی کمی تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔ یہ اس کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اور دوہ (مہینے میں) کئی دن نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں (ان ایام میں) روزہ نہیں رکھ سکتی، دین کا نقص ہے۔
تشریح :
1۔استغفار اور صدقے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
2۔ نبی اکرم ﷺ کو جنت اور جہنم میں مشاہدہ کرایا گیا اس لیے آپ نے اس بارے میں جو فرمایا چشم دید فرمایا۔ہمارا فرض ہے کہ اس پر ایمان رکھیں۔
3۔عقل میں ناقس ہونے سے مراد یہ ہے کہ عورتوں پر فطرتاً جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے عورت کو جو بچے کی پرورش کا فریضہ سونپا ہے اس کے لیے ضزبات کا یہ غلبہ ضروری ہےتاہم اجتماعی معاملات کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہاں جذباتی فیصلے مفید نہیں ہوتے۔
4۔دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گوہی کے برابر ہونے کی وجہ یہ ہے کہاسلام نے عورت کو گھر سے باہر کی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے،گواہی وغیرہ کے معاملات اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔عورت کی گواہی کی ضرورت صرف خاص حالات میں پڑٹی ہے یعنی جب موقع پر دو مرد موجود نہ ہوں جو گواہ بن سکیں ۔اسلامی نظام و معاشرے کے مجموعی خدوخال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی قانون بہتر ہے۔
5۔عورت ایام حیض میں نماز نہیں پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔اس کی یہ فطری کمزوری اس کا قصور نہیں یہ ایسے ہی ہے جس طرح ایک کمزور بدن والا مسلمان بہت سی وہ نیکیاں انجام نہیں دے سکتا جو طاقتور جسم والا مسلمان انجام دے سکتا ہے اس لحاظ سے طاقتور بہتر اور افضل ہے لیکن اس میں کمزور مسلمان قصوروار نہیں۔
6۔مرد عورت کی محبت کی وجہ سے بعض اوقات ایسا مطالبہ تسلیم کرلیتا ہے جو وہ سکجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ بہتر نہیں۔اگر اس میں کوئی بڑا دنیاوی نقصان یا کوئی دینی نقصان نہ ہو تو تسلیم کرلینا جائز ہےتاکہ گھر آباد رہے۔
1۔استغفار اور صدقے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
2۔ نبی اکرم ﷺ کو جنت اور جہنم میں مشاہدہ کرایا گیا اس لیے آپ نے اس بارے میں جو فرمایا چشم دید فرمایا۔ہمارا فرض ہے کہ اس پر ایمان رکھیں۔
3۔عقل میں ناقس ہونے سے مراد یہ ہے کہ عورتوں پر فطرتاً جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے عورت کو جو بچے کی پرورش کا فریضہ سونپا ہے اس کے لیے ضزبات کا یہ غلبہ ضروری ہےتاہم اجتماعی معاملات کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہاں جذباتی فیصلے مفید نہیں ہوتے۔
4۔دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گوہی کے برابر ہونے کی وجہ یہ ہے کہاسلام نے عورت کو گھر سے باہر کی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے،گواہی وغیرہ کے معاملات اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔عورت کی گواہی کی ضرورت صرف خاص حالات میں پڑٹی ہے یعنی جب موقع پر دو مرد موجود نہ ہوں جو گواہ بن سکیں ۔اسلامی نظام و معاشرے کے مجموعی خدوخال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی قانون بہتر ہے۔
5۔عورت ایام حیض میں نماز نہیں پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔اس کی یہ فطری کمزوری اس کا قصور نہیں یہ ایسے ہی ہے جس طرح ایک کمزور بدن والا مسلمان بہت سی وہ نیکیاں انجام نہیں دے سکتا جو طاقتور جسم والا مسلمان انجام دے سکتا ہے اس لحاظ سے طاقتور بہتر اور افضل ہے لیکن اس میں کمزور مسلمان قصوروار نہیں۔
6۔مرد عورت کی محبت کی وجہ سے بعض اوقات ایسا مطالبہ تسلیم کرلیتا ہے جو وہ سکجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ بہتر نہیں۔اگر اس میں کوئی بڑا دنیاوی نقصان یا کوئی دینی نقصان نہ ہو تو تسلیم کرلینا جائز ہےتاکہ گھر آباد رہے۔