Book - حدیث 3984

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ صحیح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَأَهْوَى بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمَى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ»

ترجمہ Book - حدیث 3984

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: مشتبہ کام کرنے سے رک جانا امام شعبی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ کو منبر پر اپنے کانوں کی طرف انگلیوں سے اشارہ کر کے یہ فرماتے سنا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: حلال واضح ہے اور حرام (بھی) واجح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، جن سے اکثر لوگ واقف نہیں۔ تو جس نے شبہ والی چیزوں سے اجتناب کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو کوئی شبہ والی چیزوں میں مبتلا ہو گیا، وہ حرام میں مبتلا ہو جائے گا، جیسے ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد بکریاں چرانے والا، ہو سکتا ہے کہ (نادانستہ طور پر) اس کے اندر (جانور) چرا لے( اور اس طرح مجرم قرار پا جائے۔) خبردار! ہر بادشاہ کی ایک ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے (جس میں عام لوگوں کے جانوروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔) خبردار! اللہ کی ممنوعہ چراگاہ سے مراد اللہ کی حرام کردہ چیزیں (اور کام) ہیں۔ سن لو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح ہوتا ہے، اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ سنو! وہ دل ہے۔
تشریح : 1۔کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:روٹی شہد اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت شراب مردارجھوٹ بولنا چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔بعض چیزیں اور کا م ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔ 2۔جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو،مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔ 3۔مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔ 4۔جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنااگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔ 5۔مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔ 6۔دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ 1۔کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:روٹی شہد اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت شراب مردارجھوٹ بولنا چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔بعض چیزیں اور کا م ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔ 2۔جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو،مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔ 3۔مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔ 4۔جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنااگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔ 5۔مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔ 6۔دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔