كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْعُزْلَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ بَعَجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «خَيْرُ مَعَايِشِ النَّاسِ لَهُمْ، رَجُلٌ مُمْسِكٌ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَيَطِيرُ عَلَى مَتْنِهِ، كُلَّمَا سَمِعَ هَيْعَةً أَوْ فَزْعَةً، طَارَ عَلَيْهِ إِلَيْهَا، يَبْتَغِي الْمَوْتَ أَوِ الْقَتْلَ مَظَانَّهُ، وَرَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ فِي رَأْسِ شَعَفَةٍ مِنْ هَذِهِ الشِّعَافِ، أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ هَذِهِ الْأَوْدِيَةِ، يُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَيَعْبُدُ رَبَّهُ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْيَقِينُ، لَيْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِي خَيْرٍ»
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: (فتنوں کے دور میں لوگوں سے ) الگ تھلگ رہنا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے لیے بہترین زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے ی باگ پکڑے، اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر (میدانِ جنگ میں) اڑتا پھرتا ہو، جب بھی خوف زدہ کرنے والی یا پریشان کن آواز سنائی دے، وہ اس پر ادھر اُڑ جاتا ہے۔ وہ موت یا شہادت کو اس کی جگہوں میں تلاش کرتا پھرتا ہے۔ یا ایک آدمی کسی چوٹی پر یا کسی وادی میں چند بکریاں لے کر رہ رہا ہے، وہ نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ ادا کرتا ہے اور مرتے دم تک اپنے رب کی بادت کرتا رہتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ صرف نیکی کے معاملات میں تعلق رکھتا ہے۔
تشریح :
1۔ جہاد کی زندگی سب سے اعلی زندگی ہے۔
2۔مجاہد کا مقصد اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرنا اور کافروں سے مسلمانوں کی سر زمین کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔اسے عہدے تمغےانعام یا شہرت کی تمنا نہیں ہوتی۔
3۔شہادت کی تمنا کرنا اور جہاد میں اس لیے حصہ لینا کہ شہادت کی موت نصیب ہو ایک بہت بڑی خوبی ہے۔
4۔فتنوں کے زمانے میں اپنا دین بچانے کے لیے عام آبادی سے الگ تھلگ رہائش اختیار کرنا جائز ہے لیکن یہ تنہائی اس طرح کی نہیں ہونی چاہیے جس طرح کی عیسائی راہب یا ہندو جوگی اختیار کرتے ہیں کہ انسانوں سے بالکل کٹ جاتےہیں بلکہ اس کا مقصد لوگوں کے برے کا موں میں شریک ہونے سے بچنا ہے،نیکی کے کاموں میں حسب طاقت شریک رہنا چاہیے۔
5۔نماز اور زکاۃ سب سے اہم عبادتیں ہیں ان سے کسی بھی حال میں غفلت جائز نہیں۔
1۔ جہاد کی زندگی سب سے اعلی زندگی ہے۔
2۔مجاہد کا مقصد اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرنا اور کافروں سے مسلمانوں کی سر زمین کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔اسے عہدے تمغےانعام یا شہرت کی تمنا نہیں ہوتی۔
3۔شہادت کی تمنا کرنا اور جہاد میں اس لیے حصہ لینا کہ شہادت کی موت نصیب ہو ایک بہت بڑی خوبی ہے۔
4۔فتنوں کے زمانے میں اپنا دین بچانے کے لیے عام آبادی سے الگ تھلگ رہائش اختیار کرنا جائز ہے لیکن یہ تنہائی اس طرح کی نہیں ہونی چاہیے جس طرح کی عیسائی راہب یا ہندو جوگی اختیار کرتے ہیں کہ انسانوں سے بالکل کٹ جاتےہیں بلکہ اس کا مقصد لوگوں کے برے کا موں میں شریک ہونے سے بچنا ہے،نیکی کے کاموں میں حسب طاقت شریک رہنا چاہیے۔
5۔نماز اور زکاۃ سب سے اہم عبادتیں ہیں ان سے کسی بھی حال میں غفلت جائز نہیں۔