كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِي الْفِتْنَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى أُمَرَائِنَا فَنَقُولُ الْقَوْلَ: فَإِذَا خَرَجْنَا قُلْنَا غَيْرَهُ، قَالَ: «كُنَّا نَعُدُّ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، النِّفَاقَ»
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: فتنے کے زمانے میں زبان کو ( نامناسب باتوں سے) روک کر رکھنا
حضرت ابو شعثاءؓ سے روایت ہے، کسی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہا: ہم امراء (حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں تو ایک بات کہتے ہیں، پھر جب ہم باہر آتے ہیں تو دوسری بات کہتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اس چیز کو ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منافقت شمار کرتے تھے۔
تشریح :
1۔مسلمان کا ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے۔
2۔حکمرانوں کے سامنے صحیح صورت حال پیش کرنا اور صحیح رائے دینا ضروری ہے ان کی خوشنودی کے لیے غلط کام کو غلط جانتے ہوئی بھی اس کی تعریف کران بہت بڑی اخلاقی کمزوری ہے جس سے حکمران کو بھی نقصان ہوتا ہےاور مسلم عوام کو بھی۔
3۔منافقانہ طرز عمل جھوٹ دھوکے اور خوشامد پر مبنی ہوتا ہےاور یہ سب بری عادتیں ہیں۔
1۔مسلمان کا ظاہر اور باطن ایک ہونا چاہیے۔
2۔حکمرانوں کے سامنے صحیح صورت حال پیش کرنا اور صحیح رائے دینا ضروری ہے ان کی خوشنودی کے لیے غلط کام کو غلط جانتے ہوئی بھی اس کی تعریف کران بہت بڑی اخلاقی کمزوری ہے جس سے حکمران کو بھی نقصان ہوتا ہےاور مسلم عوام کو بھی۔
3۔منافقانہ طرز عمل جھوٹ دھوکے اور خوشامد پر مبنی ہوتا ہےاور یہ سب بری عادتیں ہیں۔