كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِي الْفِتْنَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ: مَرَّ بِهِ رَجُلٌ لَهُ شَرَفٌ، فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ: إِنَّ لَكَ رَحِمًا، وَإِنَّ لَكَ حَقًّا، وَإِنِّي رَأَيْتُكَ تَدْخُلُ عَلَى هَؤُلَاءِ الْأُمَرَاءِ، وَتَتَكَلَّمُ عِنْدَهُمْ بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَتَكَلَّمَ بِهِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ، صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ، مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ بِهَا سُخْطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ» قَالَ عَلْقَمَةُ: فَانْظُرْ وَيْحَكَ مَاذَا تَقُولُ؟ وَمَاذَا تَكَلَّمُ بِهِ، فَرُبَّ كَلَامٍ قَدْ مَنَعَنِي أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ، مَا سَمِعْتُ مِنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: فتنے کے زمانے میں زبان کو ( نامناسب باتوں سے) روک کر رکھنا
حضرت علقمہ بن وقاص ؓ سے روایت ہے، ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا جو (معاشرے میں) اونچا مقام رکھتا تھا۔ علقمہ ؓ نے اس سے کہا: تیرا (مجھ سے) قرابت کا تعلق ہے اور (مجھ پر) تیرا حق ہے۔ ( اس لیے نصیحت کے طور پر بات کر رہا ہوں۔) میں نے دیکھا ہے کہ تو ان حکمرانوں کے پاس جاتا ہے، اور ان سے، جو اللہ چاہے، بات چیت کرتا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت بلال بن حارث مُزنی ؓ سے سنا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اللہ کو راضی کرنے والی ایک بات کرتا ہے، وہ نہیں سمجھتا کہ اس کا وہاں تک اثر ہو گا جہاں تک (حقیقت میں) ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اللہ عزوجل اس کے لیے قیامت تک اپنی خوشنودی لکھ دیتا ہے۔ اور ایک آادمی اللہ کی ناراضی والی ایک بات کرتا ہے، وہ نہیں سمجھتا کہ اس کا وہاں تک اثر ہو گا جہاں تک (حقیقت میں) ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اللہ عزوجل اس کے لیے اس دن تک اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے جس دن اس سے ملاقات ہو گی۔
علقمہ ؓ نے کہا: اس لیے دیکھ لیا کر کہ تو کیا کہہ رہا ہے اور کیا کچھ منہ سے نکال رہا ہے، تیرا بھلا ہو۔ مجھے تو بلال بن حارث ؓ سے سنی ہوئی یہ حدیث کئی باتین کہنے سے روک دیتی ہے۔
تشریح :
1۔حکمرانوں سے تعلق رکھنے میں خطرہ ہے کہ ان کے غلط کاموں یا غلط باتوں کی تائید کرنی پڑے گی اس لیے احتیاط پسند بزرگ حکومتی عہدیداروں سے زیادہ میل جول پسند نہیں فرماتے۔لیکن اگر کسی ضرورت مند یا مظلوم کی مدد کےلیے یا ان کی کسی غلطی پر تنبیہ کرنے کے لیے ان کے پاس جائیں توحرج نہیں۔
2۔حکمران اپنے مشیروں سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے انھیں غلط مشورہ دینے والا بہت بڑا مجرم ہے اور ان کے غلط اقدام میں شریک ہے۔
3۔بعض اوقات ظاہری طعر پر معمولی سمجھی جانے والی بات بہت دوررس اثرات رکھتی ہے،اس لیے معاشرے میں اہم مقام رکھنے والوں کو بہت مقام رکھنے والوں کو بہت احتیاط سے بات کرنی چاہیے۔
4۔سیاست دان ہوں یا علماء یا افسران ان کی ذمہ داری بہت نازک ہے۔اس کااحساس رہنا چاہیے۔
5۔علمائے کرام کو چاہیے کہ جب حکومتی عہدے دار ان سے مشورے طلب کریں تو انھیں صحیح مشورہ دیں اور جب نصیحت کی درخواست کریں تو انھیں اللہ کی رضا کے لیے ایسی نصیحت کریں جس سے عام مسلمان کو فائدہ ہو۔
1۔حکمرانوں سے تعلق رکھنے میں خطرہ ہے کہ ان کے غلط کاموں یا غلط باتوں کی تائید کرنی پڑے گی اس لیے احتیاط پسند بزرگ حکومتی عہدیداروں سے زیادہ میل جول پسند نہیں فرماتے۔لیکن اگر کسی ضرورت مند یا مظلوم کی مدد کےلیے یا ان کی کسی غلطی پر تنبیہ کرنے کے لیے ان کے پاس جائیں توحرج نہیں۔
2۔حکمران اپنے مشیروں سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے انھیں غلط مشورہ دینے والا بہت بڑا مجرم ہے اور ان کے غلط اقدام میں شریک ہے۔
3۔بعض اوقات ظاہری طعر پر معمولی سمجھی جانے والی بات بہت دوررس اثرات رکھتی ہے،اس لیے معاشرے میں اہم مقام رکھنے والوں کو بہت مقام رکھنے والوں کو بہت احتیاط سے بات کرنی چاہیے۔
4۔سیاست دان ہوں یا علماء یا افسران ان کی ذمہ داری بہت نازک ہے۔اس کااحساس رہنا چاہیے۔
5۔علمائے کرام کو چاہیے کہ جب حکومتی عہدے دار ان سے مشورے طلب کریں تو انھیں صحیح مشورہ دیں اور جب نصیحت کی درخواست کریں تو انھیں اللہ کی رضا کے لیے ایسی نصیحت کریں جس سے عام مسلمان کو فائدہ ہو۔