Book - حدیث 3956

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا يَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنَا، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهُمْ يُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، ثُمَّ تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ فِتْنَةٌ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ سَرَّهُ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَمِينِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ، مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ، فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ ، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ، فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي

ترجمہ Book - حدیث 3956

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: مستقبل میں ظاہر ہونے والے فتنے حضرت عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ کعبے کے سائے میں بیٹھے تھے اور لوگ آپے کے پاس جمع تھے۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ ایک مزل پر اترے، ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی (تفریح کے طور پر) تیر اندازی کر رہا تھا اور کوئی اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔ اچانک (نبی ﷺ کے) اعلان کرنے والے نے اعلان کیا: سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ ہم سب جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے (نماز کے بعد) اٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے فرمایا: مجھ سے پہلے جو بھی نبی آیا، اس کا فرض تھا کہ اسے جو بھلائی معلوم ہے اس سے انہیں ڈرائے۔ اس امت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں ہے اور آخر والوں کو ایسی آزمائشیں آئیں گی اور ایسے معاملات پیش آئیں گے جن کو تم عجیب محسوس کرو گے، پھر فتنے پیش آئیں گے جو ایک دوسرے کو معمولی بنا دیں گے۔ (بعد والا فتنہ دیکھ کر معلوم ہو گا کہ اس سے تو پہلا ہی ہلکا تھا۔) مومن کہے گا: یہ فتنہ مجھے تباہ کر دے گا۔ پھر وہ (فتنہ) ختم ہو جائے گا۔ پھر (دوسرا) فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا: یہ مجھے تباہ کر دے گا۔ پھر وہ ختم ہو جائے گا، لہذا جسے یہ بات پسند ہے کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، اسے چاہیے کہ اسے موت آئے تو وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں سے ایسا سلوک کرے جیسا وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے کریں۔ اور جس نے کسی (شرعی) امام کی بیعت کی، اس سے ہاتھ ملا کر عہد کیا اور اس کو اپنے دل کا خلوص پیش کیا تو اسے چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی اطاعت کرے۔ اگر کوئی دوسرا شخص آ کر اس (خلیفہ) سے کھینچا تانی کرے ( اس سے حکومت چھیننے کی کوشش کرے) تو اس دوسرے (مدعی خلافت) کی گردن اڑا دو۔ عبدالرحمٰن ؓ بیان فرماتے ہیں: میں نے لوگوں کے درمیان اپنا سر آگے نکالا اور کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ نے یہ فرمان خود رسول اللہ ﷺ سےسنا ہے؟ حضرت عبداللہ ؓ نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی طرف اشرہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔
تشریح : 1۔نبیﷺ کی جدو جہد کی بنیاد خلوص اور انسانوں کی خیر خواہی پر ہوتی ہے۔علماء کو بھی اسی بنیاد پر محنت کرنی چاہیے۔ 2۔صحابہ وتابعین مخلص مومن تھے ان سے اختلاف کرنے والے غلطی پر تھے۔ 3۔ مومن فتنوں کو پہچانتا ہے اس لیے انھیں قبول نہیں کرتا اگرچہ بے انتہا مشکلات آجائیں۔ 4۔فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ 5۔معاملات میں صحیح اور غلط کا معیار یہ ہے کہ دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسا تم اپنے آپ سے کیا جانا پسند کرتے ہو مثلاً:جس طرح ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہجب اسے مشورے کی ضرورت پڑے تو صحیح مشورہ دیا جائے اسی طرح اسے چاہیے کہ دوسروں کو صحیح مشورہ دے۔جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ نہ دے۔ 6۔اسلامی سلطنت میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے شخص کا خلا فت کے استحقاق کا دعوی ٰ لے کر کھڑا ہونا مسلمانوں میں انتشار وافتراق کا باعث ہے۔ 7۔پہلے خلیفہ کے بعد مسلمانوں کے اہل حل وعقد دوسرا خلیفہ منتخب کریں گے۔کسی کو خود بخود خلافت کا دعویٰ لے کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ 8۔موجودہ خلیفہ غلطیوں پر سخت تنقید کی لیکن یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا کہ حکومت ہمیں دے دو۔ 1۔نبیﷺ کی جدو جہد کی بنیاد خلوص اور انسانوں کی خیر خواہی پر ہوتی ہے۔علماء کو بھی اسی بنیاد پر محنت کرنی چاہیے۔ 2۔صحابہ وتابعین مخلص مومن تھے ان سے اختلاف کرنے والے غلطی پر تھے۔ 3۔ مومن فتنوں کو پہچانتا ہے اس لیے انھیں قبول نہیں کرتا اگرچہ بے انتہا مشکلات آجائیں۔ 4۔فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ 5۔معاملات میں صحیح اور غلط کا معیار یہ ہے کہ دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسا تم اپنے آپ سے کیا جانا پسند کرتے ہو مثلاً:جس طرح ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہجب اسے مشورے کی ضرورت پڑے تو صحیح مشورہ دیا جائے اسی طرح اسے چاہیے کہ دوسروں کو صحیح مشورہ دے۔جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ نہ دے۔ 6۔اسلامی سلطنت میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے شخص کا خلا فت کے استحقاق کا دعوی ٰ لے کر کھڑا ہونا مسلمانوں میں انتشار وافتراق کا باعث ہے۔ 7۔پہلے خلیفہ کے بعد مسلمانوں کے اہل حل وعقد دوسرا خلیفہ منتخب کریں گے۔کسی کو خود بخود خلافت کا دعویٰ لے کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ 8۔موجودہ خلیفہ غلطیوں پر سخت تنقید کی لیکن یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا کہ حکومت ہمیں دے دو۔