Book - حدیث 3955

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا يَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَأَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، قَالَ: كَيْفَ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ» ، فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَاكَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ؟ قَالَ: «نَعَمْ، كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ، إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ» ، فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ، مَنِ الْبَابُ؟ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ

ترجمہ Book - حدیث 3955

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: مستقبل میں ظاہر ہونے والے فتنے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے فرمایا: تم میں سے کسی کو فتنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے کہا: مجھے یاد ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم جرات مند ہو۔ پھر فرمایا (وہ حدیث) کس طرح ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: آدمی کو اس کے اہل و عیال اور پڑوسیوں کے بارے میں جو آزمائش آتی ہے، اس کی معافی نماز، روزے، صدقے، امر بالعروف اور نہی عن المنکر سے ہو جاتی ہے۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا یہ مقصد نہیں۔ (اس سوال سے) میرا مقصد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی طرح تلاطم خیز ہو گا۔ انہوں نے کہا: امیر المومنین! آپ کو اس سے کیا خطرہ ہے؟ آپ کے اور اس (فتنے) کے درمیان تو ایک بندہ دروازہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: وہ دروازہ ٹوٹ جائے گا یا کھل جائے گا؟ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: نہیں، بلکہ ٹوٹ جائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس کا تقا جا تو یہ ہے کہ وہ (دوبارہ) بند نہیں ہو گا۔ حضرت شقیق ؓ نے بیان کیا: ہم لوگوں نے حضرت حذیفہ ؓ سے کہا: کیا حضرت عمر ؓ کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے؟ حذیفہ ؓ نے فرمایا: ہاں، (انہیں اس قدر یقینی معلوم تھا) جیسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کل کا دن آنے سے پہلے رات آئے گی۔ میں نے انہیں ایک حدیث سنائی تھی جو غلط سلط (اغلوطہ اور من گھڑت) نہیں تھی۔ (حضرت شقیق ؓ نے کہا: ) ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے خوف محسوس ہوا کہ وہ دروازہ کون تھا؟ (کہیں مسلسل سوالات سے ناراضی محسوس نہ کریں) چنانچہ ہم نے مسروق ؓ سے کہا: ان سے یہ بات پوچھنا۔ مسروق نے ان سے پوچھا (کہ فتنوں میں رکاوٹ شخصیت کون ہے؟) تو حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: حضرت عمر ؓ۔
تشریح : 1۔اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔ 2۔چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔ 3۔اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔ 4۔دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔ 5۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔عام مسلامنوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ 6۔یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔ 1۔اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔ 2۔چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔ 3۔اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔ 4۔دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔ 5۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔عام مسلامنوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ 6۔یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔