كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعْبَدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: «اسْتَنْصِتِ النَّاسَ» ، فَقَالَ: «لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»
کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل
باب: (فرمان نبوی) ’میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگ جاؤ، کابیان
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو خاموش کراؤ۔ (جب لوگ خاموش ہو گئے) تو آپ نے فرمایا: میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگ جاؤ۔
تشریح :
1۔ بزرگ شخصیت کی بات سننے کے لیے خاموشی اختیار کرنا اور بات کرنے والوں کو خاموش کرانا احترام کا تقاضہ بھی ہے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کے لیے شرط بھی۔
2۔مسلمانوں کو آپس کے اختلافات افہام و تفہیم سے طے کرنے چاہیئں اسلحہ کے زور پر نہیں۔
3۔مسلمانوں کا باہمی اتفاق اللہ کا عظیم احسان ہے جیساکہ ارشاد ہے:(واذكروا نعمت الله عليكم اذ كنتم اعدآء فالف بين قلوبكم فاصبحتم بنعمته اخواناّوكنتم علي شفا حفرة من النار فانقذكم منها) (آل عمران ٣/ا-٣) تم پر اللہ کی جو نعمت ہوئی اسے یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی) بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس میں گرنے سے بچالیا۔
4۔مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں محبت پیدا کرنے والی چیزوں کو اختیار کریں مثلاً:ایک دوسرے کو سلام کرنا نماز باجماعت میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا اور صفیں سیدھی رکھنا وغیرہ۔اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو اختلاف اور دشمنی پیدا کرنے والے ہیں مثلاً: کسی کی بے عزتی کرنا ظلم زیادتی گالی اور غیبت وغیرہ۔
5۔قتل وغارت بہت بڑا جرم ہے جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔
1۔ بزرگ شخصیت کی بات سننے کے لیے خاموشی اختیار کرنا اور بات کرنے والوں کو خاموش کرانا احترام کا تقاضہ بھی ہے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کے لیے شرط بھی۔
2۔مسلمانوں کو آپس کے اختلافات افہام و تفہیم سے طے کرنے چاہیئں اسلحہ کے زور پر نہیں۔
3۔مسلمانوں کا باہمی اتفاق اللہ کا عظیم احسان ہے جیساکہ ارشاد ہے:(واذكروا نعمت الله عليكم اذ كنتم اعدآء فالف بين قلوبكم فاصبحتم بنعمته اخواناّوكنتم علي شفا حفرة من النار فانقذكم منها) (آل عمران ٣/ا-٣) تم پر اللہ کی جو نعمت ہوئی اسے یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی) بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس میں گرنے سے بچالیا۔
4۔مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں محبت پیدا کرنے والی چیزوں کو اختیار کریں مثلاً:ایک دوسرے کو سلام کرنا نماز باجماعت میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا اور صفیں سیدھی رکھنا وغیرہ۔اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو اختلاف اور دشمنی پیدا کرنے والے ہیں مثلاً: کسی کی بے عزتی کرنا ظلم زیادتی گالی اور غیبت وغیرہ۔
5۔قتل وغارت بہت بڑا جرم ہے جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔