Book - حدیث 393

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الرَّجُلِ يَسْتَيْقِظُ مِنْ مَنَامِهِ، هَلْ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ اللَّيْلِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يُفْرِغَ عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي فِيمَ بَاتَتْ يَدُهُ

ترجمہ Book - حدیث 393

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: کیا آدمی نیندسے بیدارہوکربغیر ہاتھ دھوئےپانی کے برتن ڈال سکتا ہے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب کوئی شخص رات کو سو کر جاگے تو برتن میں اپنا ہاتھ نہ ڈالے جب تک اس پر دو تین بار پانی نہ ڈال لے۔( ہاتھ دھو کر پانی میں ڈالے) کیوں کہ اسے معلوم نہیں کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے
تشریح : 1)رات اور دن کا حکم ایک ہی ہے۔حدیث میں رات کا لفظ اس لیے بولا کیا ہے کہ انسان رات ہی کو زیادہ سوتا ہے۔ 2۔پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کی حکمت یہ بیان کی گئی ہےکہ نیند میں انسان کو اپنے افعال وحرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ،اس لیے ممکن ہے کہ ہاتھ ناک وغیرہ یا پردے کے اعضاء کویا زمین میں سونے کی صورت میں مٹی وغیرہ میں لگ جائے لہذا صفائی اور طہارت کا تقاضہ ہے کہ نیند سے جاگ کر ہاتھ دھولیے جائیں۔ 3۔دو تین دفعہ دھونے کا حکم اس لیے ہے کہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہوجائے اور کسی قسم کاشک باقی نہ رہے اس لیے اگر ایک بار دھونے سے صفائی کا یقین ہوجائےتوکافی ہے۔ 4۔بعض علماء نے برتن کے لفظ سے استدلال کیا ہے کہ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور حوض وتالاب اس حکم سے مستثنی ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حوض اور تالاب کا پانی بہت زیادہ ہوتا ہے۔اس میں قلیل نجاست مل جانے سے وہ ناپاک نہیں ہوتااور مذکورہ بالا صورت میں تو یہ نجاست بھی یقینی نہیں بلکہ نجاست کا محض احتمال ہے۔ 1)رات اور دن کا حکم ایک ہی ہے۔حدیث میں رات کا لفظ اس لیے بولا کیا ہے کہ انسان رات ہی کو زیادہ سوتا ہے۔ 2۔پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کی حکمت یہ بیان کی گئی ہےکہ نیند میں انسان کو اپنے افعال وحرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ،اس لیے ممکن ہے کہ ہاتھ ناک وغیرہ یا پردے کے اعضاء کویا زمین میں سونے کی صورت میں مٹی وغیرہ میں لگ جائے لہذا صفائی اور طہارت کا تقاضہ ہے کہ نیند سے جاگ کر ہاتھ دھولیے جائیں۔ 3۔دو تین دفعہ دھونے کا حکم اس لیے ہے کہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہوجائے اور کسی قسم کاشک باقی نہ رہے اس لیے اگر ایک بار دھونے سے صفائی کا یقین ہوجائےتوکافی ہے۔ 4۔بعض علماء نے برتن کے لفظ سے استدلال کیا ہے کہ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور حوض وتالاب اس حکم سے مستثنی ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حوض اور تالاب کا پانی بہت زیادہ ہوتا ہے۔اس میں قلیل نجاست مل جانے سے وہ ناپاک نہیں ہوتااور مذکورہ بالا صورت میں تو یہ نجاست بھی یقینی نہیں بلکہ نجاست کا محض احتمال ہے۔