Book - حدیث 3929

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْكَفِّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ أَوْسًا أَخْبَرَهُ، قَالَ: إِنَّا لَقُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُصُّ عَلَيْنَا، وَيُذَكِّرُنَا، إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَسَارَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبُوا بِهِ فَاقْتُلُوهُ» ، فَلَمَّا وَلَّى الرَّجُلُ، دَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «هَلْ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبُوا فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ، حَرُمَ عَلَيَّ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ

ترجمہ Book - حدیث 3929

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: کلمۂ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا حضرت اوس بن ابو اوس حذیفہ ثقفیؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم لوگ نبیﷺ کے پاس بیٹھے تھے اور آپ ہمیں وعظ و نصیحت فرمارہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نبیﷺ سے چپکے چپکے بات کی۔ نبیﷺ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور قتل کردو۔ جب وہ آدمی اٹھ کر چلا تو اللہ کے رسولﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ اسے آزاد کردو۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کوں حتیٰ کہ وہ لا إلٰہَ إلاّ اللہ کا اقرار کر لیں۔ جب وہ ایسا کریں تو ان کی جانیں اور مال مجھ کلمہ توحید کا قرار کرنے والے کو قتل کرنے کی ممانعت کا بیان پر حرام ہیں۔
تشریح : 1۔نبیﷺ نے سرگوشی کرنے والے کی بات سے یہ سمجھا کہ یہ شخص دل سے مسلمان نہیں بعد میں اس کے ظاہری اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اسے چھوڑدیا۔امام سیوطی ؒ اس کی بابت لکھتے ہیں: زیادہ صحیح تشریح یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو اجازت تھی کہ کسی سے اس کی دلی کیفیات کے مطابق سلوک کریں،چنانچہ اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ فرمایا(کفر کی بنا پر قتل کرنا چاہا) پھر نبی ﷺ کو یہ بات بہتر محسوس ہوئی کہ ظاہر پرعمل کیاجائے(اس کے ظاہری اسلام کی وجہ سے مسلمانوں والا سلوک کیاجائے) کیونکہ یہ قانون نبیﷺ اور امت سب کے لیے ہے اس لیے آپ اس طرف مائل ہوگئے اور باطن (کی حقیقی کیفیت) کے مطابق عمل سےاجتناب فرمایا۔ (شرح سنن نسائي كتاب تحريم الدم) 2۔ سنن نسائی کے اس باب میں حضت اوس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی مروی ہے۔حضرت اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں قبیلہ ثقیف کے وفد میں شامل ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں خیمے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔ میرے اور نبی ﷺ کے سوا خیمے کے سب افراد سوگئے۔(اس تنہائی کے وقت)ایک آدمی نے آکر چپکے سے ب ات کی ۔نبی ﷺ نے فرمایا جا اسے قتل کردے۔ پھر فرمایا: کیا وہ لااله الاالله کی اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟ اس نے کہا:گواہی دیتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑدے۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں حتی کہ وہ لااله الاالله کہیں۔جب وہ اس کا اقرار کر لیں توا ن کے خون اور ان کے مال( مسل؛مانوں پر ) حرام ہوگئے مگر اس حق کے ساتھ۔ (سنن نسائي المحاربة باب تحريم الدم حديث:٣٩٨٧) 1۔نبیﷺ نے سرگوشی کرنے والے کی بات سے یہ سمجھا کہ یہ شخص دل سے مسلمان نہیں بعد میں اس کے ظاہری اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اسے چھوڑدیا۔امام سیوطی ؒ اس کی بابت لکھتے ہیں: زیادہ صحیح تشریح یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو اجازت تھی کہ کسی سے اس کی دلی کیفیات کے مطابق سلوک کریں،چنانچہ اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ فرمایا(کفر کی بنا پر قتل کرنا چاہا) پھر نبی ﷺ کو یہ بات بہتر محسوس ہوئی کہ ظاہر پرعمل کیاجائے(اس کے ظاہری اسلام کی وجہ سے مسلمانوں والا سلوک کیاجائے) کیونکہ یہ قانون نبیﷺ اور امت سب کے لیے ہے اس لیے آپ اس طرف مائل ہوگئے اور باطن (کی حقیقی کیفیت) کے مطابق عمل سےاجتناب فرمایا۔ (شرح سنن نسائي كتاب تحريم الدم) 2۔ سنن نسائی کے اس باب میں حضت اوس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی مروی ہے۔حضرت اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں قبیلہ ثقیف کے وفد میں شامل ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں خیمے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔ میرے اور نبی ﷺ کے سوا خیمے کے سب افراد سوگئے۔(اس تنہائی کے وقت)ایک آدمی نے آکر چپکے سے ب ات کی ۔نبی ﷺ نے فرمایا جا اسے قتل کردے۔ پھر فرمایا: کیا وہ لااله الاالله کی اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟ اس نے کہا:گواہی دیتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑدے۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں حتی کہ وہ لااله الاالله کہیں۔جب وہ اس کا اقرار کر لیں توا ن کے خون اور ان کے مال( مسل؛مانوں پر ) حرام ہوگئے مگر اس حق کے ساتھ۔ (سنن نسائي المحاربة باب تحريم الدم حديث:٣٩٨٧)