Book - حدیث 3927

كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْكَفِّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا، عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ Book - حدیث 3927

کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل باب: کلمۂ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں حتیٰ کہ وہ لاإلٰہَ إلاّ اللہ کا اقرار کر لیں۔ جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں تو انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیے، سوائے اس کے کہ اس (اقرار، یعنی کلمے اور اسلام) کا کوئی حق ہو (تو پھر لوگوں کے جان و مال میں تصرف کرنا جائز ہوگا) اور (دل کے معاملات میں) ان کا حساب اللہ عزوجل کے ذمے ہے۔
تشریح : 1۔ کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے پر دنیا میں مسلمانوں کے احکام جاری ہوتے ہیں۔اگر دل میں ایمان نہیں ہوگا تو اس کی سزا آخرت میں ملے گی۔ 2۔ خون اور مال محفوظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے جنگ کرکے انھیں قتل نہیں کیا جائے گا نہ ان کے مال پر بطور غنیمت یا فے قبضہ کیا جائے گا۔ 3۔جان میں حق کے ساتھ تصرف سے مراد اس ساے سرزد ہونے والے جر م کی سزا دینا ہے مثلاً چوری کی صورت میں ہاتھ کا ٹنا پاک دامن پر بدکاری کا الزام لگائے تو کوڑے مارنا قتل کی صورت میں قصاص کے طور پر قتل کرنا وغیرہ،اور مال میں جائز تصرف زکاۃ اور لازمی خرچ وصول کرنا قتل عمد میں مقتول کے وارثوں کے مطالبے پر قاتل یا اس کے قبیلے سے دیت(خون بہا)وصول کرنا وغیرہ 4۔اگر دنیا میں کسی وجہ سے گناہ کی سزا نہ ملے تو آخرت میں سزا ملے گی البتہ کسی بڑے نیک کام کی وجہ سے معافی بھی مل سکتی ہے۔ 1۔ کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے پر دنیا میں مسلمانوں کے احکام جاری ہوتے ہیں۔اگر دل میں ایمان نہیں ہوگا تو اس کی سزا آخرت میں ملے گی۔ 2۔ خون اور مال محفوظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے جنگ کرکے انھیں قتل نہیں کیا جائے گا نہ ان کے مال پر بطور غنیمت یا فے قبضہ کیا جائے گا۔ 3۔جان میں حق کے ساتھ تصرف سے مراد اس ساے سرزد ہونے والے جر م کی سزا دینا ہے مثلاً چوری کی صورت میں ہاتھ کا ٹنا پاک دامن پر بدکاری کا الزام لگائے تو کوڑے مارنا قتل کی صورت میں قصاص کے طور پر قتل کرنا وغیرہ،اور مال میں جائز تصرف زکاۃ اور لازمی خرچ وصول کرنا قتل عمد میں مقتول کے وارثوں کے مطالبے پر قاتل یا اس کے قبیلے سے دیت(خون بہا)وصول کرنا وغیرہ 4۔اگر دنیا میں کسی وجہ سے گناہ کی سزا نہ ملے تو آخرت میں سزا ملے گی البتہ کسی بڑے نیک کام کی وجہ سے معافی بھی مل سکتی ہے۔