كِتَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا بَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا ضعيف مرفوعا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْرَهُ الْغِلَّ، وَأُحِبُّ الْقَيْدَ، الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ»
کتاب: خوابوں کی تعبیر سے متعلق آداب و احکام
باب: خواب کی تعبیر
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں طوق کو ناپسند کرتا ہوں اور (پاؤں کی) بیڑی کو پسند کرتا ہوں۔ بیڑی دین میں ثابت قدمی کی علامت ہے۔
تشریح :
1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے اور دیگر محققین نے ضعیف قراردیا ہے۔اس روایت کی بابت اکثر محققین کی رائے ہے کہ یہ روایت مرفوعاً ضعیف ہے موقوفاً صحیح ہے جیساکہ ہمارے فاضل محقق نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا قول نہیں بلکہ حضرتابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(ضعیف سن ابن ماجہ رقم:784 وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد رقم :3926)
2۔حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے امام قرطبی ؒ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جس کے پاؤں میں بیڑی ہو وہ ایک جگہ ٹھرا رہتا ہے اس لیے اگر دین دار نیک آدمی خواب میں اپنے پاؤں میں بیڑی دیکھتا ہے تو اس کا مطلب اس کا نیکی اور ہدایت پر قائم رہنا ہی ہوگا۔اور طوق کا ذکر قرآن میں سزا اور ذلت کے طور پر آیا ہے اس لیے اس سے دین کا نقص گناہ پر اصرار اور کسی حق دار کے حق کی ادائیگی سے گریز یا دنیا کی مشکلات مراد ہوسکتی ہیں۔ دیکھیے:فتح الباري التعبير باب القيد في المنام :١٢/٥-٥)
1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے اور دیگر محققین نے ضعیف قراردیا ہے۔اس روایت کی بابت اکثر محققین کی رائے ہے کہ یہ روایت مرفوعاً ضعیف ہے موقوفاً صحیح ہے جیساکہ ہمارے فاضل محقق نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا قول نہیں بلکہ حضرتابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(ضعیف سن ابن ماجہ رقم:784 وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد رقم :3926)
2۔حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے امام قرطبی ؒ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جس کے پاؤں میں بیڑی ہو وہ ایک جگہ ٹھرا رہتا ہے اس لیے اگر دین دار نیک آدمی خواب میں اپنے پاؤں میں بیڑی دیکھتا ہے تو اس کا مطلب اس کا نیکی اور ہدایت پر قائم رہنا ہی ہوگا۔اور طوق کا ذکر قرآن میں سزا اور ذلت کے طور پر آیا ہے اس لیے اس سے دین کا نقص گناہ پر اصرار اور کسی حق دار کے حق کی ادائیگی سے گریز یا دنیا کی مشکلات مراد ہوسکتی ہیں۔ دیکھیے:فتح الباري التعبير باب القيد في المنام :١٢/٥-٥)