كِتَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا بَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَجَلَسْتُ إِلَى شِيَخَةٍ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ شَيْخٌ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَصًا لَهُ، فَقَالَ الْقَوْمُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، فَقَامَ خَلْفَ سَارِيَةٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ كَذَا، وَكَذَا، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، الْجَنَّةُ لِلَّهِ يُدْخِلُهَا مَنْ يَشَاءُ، وَإِنِّي رَأَيْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُؤْيَا، رَأَيْتُ كَأَنَّ رَجُلًا أَتَانِي، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَلَكَ بِي فِي نَهْجٍ عَظِيمٍ، فَعُرِضَتْ عَلَيَّ طَرِيقٌ عَلَى يَسَارِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْلُكَهَا، فَقَالَ: إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ طَرِيقٌ عَنْ يَمِينِي، فَسَلَكْتُهَا، حَتَّى إِذَا انْتَهَيْتُ إِلَى جَبَلٍ زَلَقٍ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَزَجَّلَ بِي، فَإِذَا أَنَا عَلَى ذُرْوَتِهِ، فَلَمْ أَتَقَارَّ، وَلَمْ أَتَمَاسَكْ، وَإِذَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ فِي ذُرْوَتِهِ حَلْقَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَّلَ بِي، حَتَّى أَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَالَ: اسْتَمْسِكْ. قُلْتُ: نَعَمْ، فَضَرَبَ الْعَمُودَ بِرِجْلِهِ، فَاسْتَمْسَكْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَالَ: قَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «رَأَيْتَ خَيْرًا، أَمَّا الْمَنْهَجُ الْعَظِيمُ، فَالْمَحْشَرُ، وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عُرِضَتْ عَنْ يَسَارِكَ، فَطَرِيقُ أَهْلِ النَّارِ، وَلَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا، وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عُرِضَتْ عَنْ يَمِينِكَ، فَطَرِيقُ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ الزَّلَقُ، فَمَنْزِلُ الشُّهَدَاءِ، وَأَمَّا الْعُرْوَةُ الَّتِي اسْتَمْسَكْتَ بِهَا، فَعُرْوَةُ الْإِسْلَامِ، فَاسْتَمْسِكْ بِهَا حَتَّى تَمُوتَ» ، فَأَنَا أَرْجُو أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ
کتاب: خوابوں کی تعبیر سے متعلق آداب و احکام
باب: خواب کی تعبیر
حضرت خرشہ بن حرفزاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مدینہ منورہ آیا تو مسجد نبوی میں کچھ بزرگ حضرات کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: جو کوئی ایک جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہے، وہ انہیں دیکھ لے۔ انہوں نے ایک ستون کے پیچھے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی۔ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور انہیں کہا: کچھ لوگ آپ کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: الحمد للہ! جنت اللہ کی ہے، وہ جسے چاہے گا اس میں داخل کرے گا۔ (لوگ یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ) میں نے اللہ کے رسولﷺ کےزمانۂ مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا۔ میں نے دیکھاگویا ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا: چلئے تو میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ مجھے ایک بڑی شاہرا ہ پر لے چلا۔ (چلتے چلتے ) مجھے بائیں طرف ایک راستہ نظر آیا۔ میں نے اس پر چلنے کا ارادہ کیا تو اس (میرے ساتھی) نےکہا: آپ اس راستے والوں میں سے نہیں۔ پھر مجھے دائیں طرف ایک راستہ نظر آیا۔ میں اس پر چل پڑا حتیٰ کہ میں پھسلواں پہاڑ تک جا پہنچا۔ اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اوپر کی طرف اچھا ل دیا۔ اچانک میں اس (پہاڑ)کی چوٹی پر پہنچ گیا۔ میں وہاں نہ ٹھہر سکا اور پاؤں نہ ج سکا۔ اچانک دیکھا کہ لوہے کا ایک ستون ہے جس کے بالائی حصے میں سونے کا ایک حلقہ ہے۔ اس شخص نے میرہاتھ پکڑا اور مجھے اوپر اچھال دیا حتیٰ کہ میں نے وہ حلقہ پکڑ لیا۔ اس نے کہا: کیا آپ نے اسے اچھی طرح پکڑ لیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، تو پھر اس نےستون کو پاؤں مارا (اور گرادیا) اور میں حلقے کو مضبوطی سے پکڑے رہا۔ (پھر میں بیدار ہو گیا۔)
صحابی فرماتے ہیں: میں نے نبیﷺ کو خواب سنایا تو آپ نے فرمایا: تو نے اچھی چیز دیکھی ہے۔ وہ شاہراہ تو میدان محشر تھی۔ بائیں طرف جو راستہ نظر آیا، وہ جہنمیوں کا راستہ تھا۔تو اس راستے والوں میں نہیں۔ اور جو راستہ تجھے دائیں طرف نظر آیا، وہ اہل جنت کا راستہ تھا۔ وہ پھسلواں پہاڑ شہیدوں کا مقام تھا اور جو حلقہ تو نے پکڑا وہ اسلام کا حلقہ ہے۔ اسے فوت ہونے تک مضبوطی سے پکڑے رہنا۔
(اب اس خواب اور نبیﷺ کی اس تعبیر کی وجہ سے) مجھے امید ہے کہ میں جنت والوں میں سے ہوں گا۔ (دریافت کرنے) معلوم ہوا کہ وہ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ تھے۔
تشریح :
1۔حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی مذہب پر تھےاور ان کے بہت بڑے عالم تھے۔
2۔دین پر مرتے وقت دم تک قائم رہنا نجات کا باعث ہے۔
3۔شہادت کے منصب کو پھسلواں پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح پھسلن والے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جہاد کرکے شہادت حاصل کرنا ، مشکل ہے لیکن وہ پہاڑ کی طرح بلند اور عظیم مقام ہے۔
1۔حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی مذہب پر تھےاور ان کے بہت بڑے عالم تھے۔
2۔دین پر مرتے وقت دم تک قائم رہنا نجات کا باعث ہے۔
3۔شہادت کے منصب کو پھسلواں پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح پھسلن والے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جہاد کرکے شہادت حاصل کرنا ، مشکل ہے لیکن وہ پہاڑ کی طرح بلند اور عظیم مقام ہے۔