كِتَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا بَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا صحیح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا شَابًّا عَزَبًا، فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَكَانَ مَنْ رَأَى مِنَّا رُؤْيَا، يَقُصُّهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ لِي عِنْدَكَ خَيْرٌ فَأَرِنِي رُؤْيَا يُعَبِّرُهَا لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنِمْتُ، فَرَأَيْتُ مَلَكَيْنِ أَتَيَانِي فَانْطَلَقَا بِي، فَلَقِيَهُمَا مَلَكٌ آخَرُ، فَقَالَ: لَمْ تُرَعْ، فَانْطَلَقَا بِي إِلَى النَّارِ، فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ الْبِئْرِ، وَإِذَا فِيهَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُ بَعْضَهُمْ، فَأَخَذُوا بِي ذَاتَ الْيَمِينِ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَفْصَةَ، فَزَعَمَتْ حَفْصَةُ، أَنَّهَا قَصَّتْهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ، لَوْ كَانَ يُكْثِرُ الصَّلَاةَ مِنَ اللَّيْلِ» قَالَ: «فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُكْثِرُ الصَّلَاةَ مِنَ اللَّيْلِ»
کتاب: خوابوں کی تعبیر سے متعلق آداب و احکام
باب: خواب کی تعبیر
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: یں رسول اللہﷺ کے زمانے میں غیر شادی شدہ نوجوان لڑکا تھا۔ میں رات کو مسجد میں سویا کرتا تھا۔ ہم میں سے جو کوئی خواب دیکھتا نبیﷺ سے بیان کرتا۔ میں نے کہا: یا اللہ! اگر تیرے پاس میرے لیے خیر ہے تو مجھے بھی کوئی خواب دکھادے جس کی تعبیر نبیﷺ کریں، چنانچہ (ایک بار) میں سویا تو میں نے (خواب میں ) دیکھاکہ میرے پاس دو فرشتے آئے ہیں اور مجھے ساتھ لے گئے۔ انہیں ایک اور فرشتہ ملا اس نے (مجھ سے) کہا: گھبرا مت۔ وہ دونوں فرشتے مجھے جہنم کی طرف لے گئے۔ دیکھا تو اس کی منڈیر بنی ہوئی تھی جس طرح کنویںکی منڈیر ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس میں کچھ لوگ تھے جن میں سے بعض کو میں نے پہچان لیا، پھر وہ (فرشتے) مجھے دائیں طر لے گئے۔ صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب (اپنی ہمشیرہ ام المومنین) حضرت حفصہ کو سنایا۔ حضرت حفصہ نے بیایا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ خواب سنایا تو آپؐ نے فرمایا: عبد اللہ نیک آدمی ہے، کاش وہ رات کو نماز تہجد زیادہ پڑھتا۔
(حضرت ابن عمر کے بیٹے حضرت سالم ؓ نے) فرمایا: اس لیے حضرت عبد اللہ رات کو بہت زیادہ نماز پڑھتے تھے۔
تشریح :
1۔ایک نوجوان کنوارا آدمی ضرورت پڑنے پر دن یا رات کو مسجد میں سوسکتا ہے۔
2۔نیک آدمی کی اس انداز سے تعریف کرنا جائز ہے جس سے اس میں فخر کے جذبات پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
3۔نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے موجود نیکی کا ذکر کرکے کوتاہی بیان کرنا درست ہے تاکہ اصلاح کی ہمت پیدا ہو۔
4۔اس میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کا اشارہ ہے۔
1۔ایک نوجوان کنوارا آدمی ضرورت پڑنے پر دن یا رات کو مسجد میں سوسکتا ہے۔
2۔نیک آدمی کی اس انداز سے تعریف کرنا جائز ہے جس سے اس میں فخر کے جذبات پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
3۔نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے موجود نیکی کا ذکر کرکے کوتاہی بیان کرنا درست ہے تاکہ اصلاح کی ہمت پیدا ہو۔
4۔اس میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کا اشارہ ہے۔