كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ مَا يَدْعُو بِهِ الرَّجُلُ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا أَمْسَى ضعیف حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَانَ لَهُ عَدْلَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَعِيلَ وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ وَكَانَ فِي حِرْزٍ مِنْ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُمْسِيَ وَإِذَا أَمْسَى فَمِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يُصْبِحَ قَالَ فَرَأَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا عَيَّاشٍ يَرْوِي عَنْكَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ صَدَقَ أَبُو عَيَّاشٍ
کتاب: دعا سے متعلق احکام ومسائل
باب: صبح و شام پڑھنے کی دعائیں
حضرت ابو عیاش زرقی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت یوں کہتا ہے: (لا اله الا الله وحده لا شريك له‘ له الملك وله الحمد وهو علي كل شئي قدير) اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہی اسی کی ہے، اور تعریف بھی اسی کی ہے۔ اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ اس کے دس گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اس کے دس درجے بلند ہو جائیں گے، اور وہ شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا۔ اگر شام کو کہے تو یہی ثواب ہو گا اور صبح تک (شیطان سے) محفوظ رہے گا۔
ایک آدمی کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی تو اس نے (خواب میں) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابو عیاش آپ سے اس اس طرح (مذکورہ) حدیث روایت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ابو عیاسچ کہتا ہے۔
تشریح :
1۔۔مسنون دعائوں کا بہت ثواب اور بہت برکت ہے۔2۔حدیث کی صحت وضعف کا دارومدار خوب پر نہیں۔اس حدیث میں تو وہ شخص بھی معلوم نہیں جس نے یہ خواب دیکھا معلوم نہیں قابل اعتماد تھایانہیں۔جب اصول حدیث کی روشنی میں حدیث ثابت ہوجائے تو وہ کافی ہے۔
1۔۔مسنون دعائوں کا بہت ثواب اور بہت برکت ہے۔2۔حدیث کی صحت وضعف کا دارومدار خوب پر نہیں۔اس حدیث میں تو وہ شخص بھی معلوم نہیں جس نے یہ خواب دیکھا معلوم نہیں قابل اعتماد تھایانہیں۔جب اصول حدیث کی روشنی میں حدیث ثابت ہوجائے تو وہ کافی ہے۔