Book - حدیث 3866

كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ ضعیف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَوْتَ اللَّهَ فَادْعُ بِبُطُونِ كَفَّيْكَ وَلَا تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا فَإِذَا فَرَغْتَ فَامْسَحْ بِهِمَا وَجْهَكَ

ترجمہ Book - حدیث 3866

کتاب: دعا سے متعلق احکام ومسائل باب: ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا حضرت عبدااللہ بن عباسؓ سےروایت ہےرسولﷺ نے فرمایا جب تو اللہ سے دعا کرے تو ہتھیلیوں کو اندر کی طرف اوپر کرکے دعا کر، ہاتھوں کی پشت کے ساتھ دعا نہ کر۔ جب تو ( دعا سے) فارغ ہوجائے تو ہاتھوں کو چہروں پر پھیرلے۔
تشریح : مذکورہ روایت ضعیف ہے۔تاہم روایت میں بیان کردہ مسائل دیگر صحیح احادیث اور صحابہ # کے عمل سے ثابت ہیں۔جیسا کہ حضرت مالک بن یسار ٭ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی ہتھیلیوں کو پھیلا کر کرو۔ہاتھوں کی پشت کو پھیلا کر نہ کرو۔''(سنن ابی دائود الوتر باب الدعاء حدیث:1186)بنا بریں عام دعائوں میں ہتھیلیاں ہی پھیلانی چاہیں۔مگر نماز استسقاء میں جب قحط اور خشکی دور کرنے کی دعا کی جائے۔تو بطور تفاول (نیک شگون) ہاتھوں کی پشت اوپر کی جانب کی جائے جو کہ سنت رسول سے ثابت ہے۔باقی رہا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کامسئلہ تو اس کا ثبوت بھی بعض صحابہ کرام# اور سلف صالحین سے ملتا ہے۔اس کی بابت امام بخاری$ نے الادب المفرد میں ابو نعیم سے موقوفا صحیح سند سے روایت بیان کی ہے۔کہ ابو نعیم فرماتے ہیں۔ کہ میں نے حضرت ابن عمر٭ اور ابن زبیر ٭دونوں حضرات کودعا کرتے ہوئے اور اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھرتے ہوئے دیکھا نیز اس مسئلے کی بابت امام طبرانی نے یزید بن سعید الکندی کی روایت نقل کی ہے۔جس کے بارے میں حافظ ابن حجر $ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لعیہ ضعیف ہے اور اس کااستاد غیرمعروف ہے لیکن اس حدیث کے موئد شاہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہے ۔علاوہ ازیں حسن بصری $ سے بھی حسن سند کے ساتھ اس کی تایئد مروی ہے مذید تفصیل کے لئے دیکھئے (العلل 2/347) گو مذکورہ روایت سندا ضعیف ہے لیکن یہ عمل صحابہ کرام# سے سلف صالحین سے صحیح سندوں سے ثابت ہے لہذا اسے بدعت کہنا درست نہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں ہے۔واللہ اعلم مذکورہ روایت ضعیف ہے۔تاہم روایت میں بیان کردہ مسائل دیگر صحیح احادیث اور صحابہ # کے عمل سے ثابت ہیں۔جیسا کہ حضرت مالک بن یسار ٭ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی ہتھیلیوں کو پھیلا کر کرو۔ہاتھوں کی پشت کو پھیلا کر نہ کرو۔''(سنن ابی دائود الوتر باب الدعاء حدیث:1186)بنا بریں عام دعائوں میں ہتھیلیاں ہی پھیلانی چاہیں۔مگر نماز استسقاء میں جب قحط اور خشکی دور کرنے کی دعا کی جائے۔تو بطور تفاول (نیک شگون) ہاتھوں کی پشت اوپر کی جانب کی جائے جو کہ سنت رسول سے ثابت ہے۔باقی رہا دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے کامسئلہ تو اس کا ثبوت بھی بعض صحابہ کرام# اور سلف صالحین سے ملتا ہے۔اس کی بابت امام بخاری$ نے الادب المفرد میں ابو نعیم سے موقوفا صحیح سند سے روایت بیان کی ہے۔کہ ابو نعیم فرماتے ہیں۔ کہ میں نے حضرت ابن عمر٭ اور ابن زبیر ٭دونوں حضرات کودعا کرتے ہوئے اور اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھرتے ہوئے دیکھا نیز اس مسئلے کی بابت امام طبرانی نے یزید بن سعید الکندی کی روایت نقل کی ہے۔جس کے بارے میں حافظ ابن حجر $ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لعیہ ضعیف ہے اور اس کااستاد غیرمعروف ہے لیکن اس حدیث کے موئد شاہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہے ۔علاوہ ازیں حسن بصری $ سے بھی حسن سند کے ساتھ اس کی تایئد مروی ہے مذید تفصیل کے لئے دیکھئے (العلل 2/347) گو مذکورہ روایت سندا ضعیف ہے لیکن یہ عمل صحابہ کرام# سے سلف صالحین سے صحیح سندوں سے ثابت ہے لہذا اسے بدعت کہنا درست نہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں ہے۔واللہ اعلم