Book - حدیث 386

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ هُوَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنْ الْمَاءِ فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ

ترجمہ Book - حدیث 386

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: سمندر کےپانی سے وضوکرنا سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ،ا نہوں نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:’’ اے اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے لیتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے۔(پینے کے لئے پانی نہیں رہے گا) تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اس کا پانی پاک کرنے والا اور اس کا مرا ہوا جانور حلال ہے۔‘‘
تشریح : 1۔سوال کرنے والے صحابی کا نام طبرانی کی روایت میں عبداللہ مذکور ہےاور مسبد احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قبیلہ بنو مدلج سے تھا۔دیکھیے:(سبل السلام شرح بلوغ المرام:١/١-) 2۔سمندر کے پانی کا ذائقہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔غالباً اسی وجہ سے صحابی کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا۔نبہ اکرمﷺنے وضاحت فرمادی کہ سمندر کا پانی پاک بھی ہے اور پاک کرنے والا بھی،اس لیے اس کو وضو وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے 3۔سمندر کے مرے ہوئے جانور سے مراد وہ جانور ہےجو پانی میں رہنے والا ہے۔وہ جس طرح زندہ پکڑا جائےتو حلال ہوتا ہےاسی طرح اگر سمندر میں مرجائےیا سمندر سے باہر آکر مرجائےتو بھی حلال ہے۔اسی خشکی کے جانور کی طرح ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (احل لكم صيدالبحر وطعامه ) ( المائدة:٥/٩٦) تمھارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے۔ البتہ خشکی میں رہنے والا جانور اگر پانی میں ڈوب کر مرجائےتو وہ حرام ہے کیونکہ وہ مردہ سمندری جانور نہیں بلکہ خشکی کا مردہ جانور ہے۔دیکھیے:( صحيح البخاري الذبائح والصيد باب الصيد اذا غاب عنه يومين او ثلاثه حديث:٥٤٨٤) 4۔صحابی نے صرف سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا تھانبی ﷺ نے پانی کے ساتھ ساتھ سمندر کے جانور کے بارے میں بھی بتادیا۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر محسوس کرے کہ سائل کو کوئی دوسرا مسئلہ بتانے کی بھی ضرورت ہے جو اس نے نہیں پوچھا تو اس کے پوچھے ہوئے مسئلے کے ساتھ دوسرا مسئلہ بھی بتادینا چاہیے۔ 5۔بعض جانور پانی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خشکی میں بھی ۔کیا انھیں پانی کے جانوروں میں شمار کرنا چاہیے یا خشکی کے جانوروں میں؟ حدیث میں ان میں سے صرف مینڈک کا ذکر آتا ہے۔اس کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث مروی ہے جس میں مینڈک کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔اس حدیث کے بارے میں محمد فواد عبد الباقی نے کہا ہے:(في الزوائد:في اسناده ابراهيم بن الفضل المخزومي وهو ضعيف) زوائد میں لکھا ہے کہ اس کی سند میں ابراہیم بن فضل مخزومی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ لیکن علامہ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو صحیح سنن ابن ماجہ میں ذکر کیا ہے۔ایک اور حدیث امام ابن حجرؒنے بلوغ المرام میں ذکر کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طبیب کو دوا میں ڈالنے کے لیے مینڈک مارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔حافظ ابن حجر نے فرمایا: اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہےامام ابو داؤد اور امام نسائی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ دیکھیے: ( بلوغ المرام كتاب الاطعمه حديث:١٣) اس حدیث کی روشنی میں ایسے جانوروں سے پرہیز ہی صحیح معلوم ہوتا ہے جو پانی اور خشکی دونوں پر زندہ رہ سکتے ہیں۔واللہ اعلم 1۔سوال کرنے والے صحابی کا نام طبرانی کی روایت میں عبداللہ مذکور ہےاور مسبد احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قبیلہ بنو مدلج سے تھا۔دیکھیے:(سبل السلام شرح بلوغ المرام:١/١-) 2۔سمندر کے پانی کا ذائقہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔غالباً اسی وجہ سے صحابی کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا۔نبہ اکرمﷺنے وضاحت فرمادی کہ سمندر کا پانی پاک بھی ہے اور پاک کرنے والا بھی،اس لیے اس کو وضو وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے 3۔سمندر کے مرے ہوئے جانور سے مراد وہ جانور ہےجو پانی میں رہنے والا ہے۔وہ جس طرح زندہ پکڑا جائےتو حلال ہوتا ہےاسی طرح اگر سمندر میں مرجائےیا سمندر سے باہر آکر مرجائےتو بھی حلال ہے۔اسی خشکی کے جانور کی طرح ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (احل لكم صيدالبحر وطعامه ) ( المائدة:٥/٩٦) تمھارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے۔ البتہ خشکی میں رہنے والا جانور اگر پانی میں ڈوب کر مرجائےتو وہ حرام ہے کیونکہ وہ مردہ سمندری جانور نہیں بلکہ خشکی کا مردہ جانور ہے۔دیکھیے:( صحيح البخاري الذبائح والصيد باب الصيد اذا غاب عنه يومين او ثلاثه حديث:٥٤٨٤) 4۔صحابی نے صرف سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا تھانبی ﷺ نے پانی کے ساتھ ساتھ سمندر کے جانور کے بارے میں بھی بتادیا۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر محسوس کرے کہ سائل کو کوئی دوسرا مسئلہ بتانے کی بھی ضرورت ہے جو اس نے نہیں پوچھا تو اس کے پوچھے ہوئے مسئلے کے ساتھ دوسرا مسئلہ بھی بتادینا چاہیے۔ 5۔بعض جانور پانی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خشکی میں بھی ۔کیا انھیں پانی کے جانوروں میں شمار کرنا چاہیے یا خشکی کے جانوروں میں؟ حدیث میں ان میں سے صرف مینڈک کا ذکر آتا ہے۔اس کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث مروی ہے جس میں مینڈک کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔اس حدیث کے بارے میں محمد فواد عبد الباقی نے کہا ہے:(في الزوائد:في اسناده ابراهيم بن الفضل المخزومي وهو ضعيف) زوائد میں لکھا ہے کہ اس کی سند میں ابراہیم بن فضل مخزومی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ لیکن علامہ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو صحیح سنن ابن ماجہ میں ذکر کیا ہے۔ایک اور حدیث امام ابن حجرؒنے بلوغ المرام میں ذکر کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طبیب کو دوا میں ڈالنے کے لیے مینڈک مارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔حافظ ابن حجر نے فرمایا: اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہےامام ابو داؤد اور امام نسائی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ دیکھیے: ( بلوغ المرام كتاب الاطعمه حديث:١٣) اس حدیث کی روشنی میں ایسے جانوروں سے پرہیز ہی صحیح معلوم ہوتا ہے جو پانی اور خشکی دونوں پر زندہ رہ سکتے ہیں۔واللہ اعلم