كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ مَنْ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: جس حدیث کے متعلق معلوم ہو کہ وہ جھوٹ ہے اسے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا منع ہے
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘ جس شخص نے میری طرف نسبت کر کے کوئی حدیث بیان کی، حالانکہ اس کے خیال میں وہ جھوٹ ہے تو وہ بھی دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔’’
تشریح :
(1) جس طرح جھوٹی حدیث گھڑنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح اس جعلی حدیث کو دوسروں تک پہنچانا بھی بڑا جرم ہے۔ ایسی حدیث روایت کرنے والا اسے گھڑنے والے کے ساتھ گناہ میں شریک ہے، لہذا وہ بھی اسی وعیدکا مستحق ہے، جو حدیث گھڑنے والے کے حق مین وارد ہے، یعنی وہ جہنمی ہے۔ (2) (الكاذبين) حدیث کا یہ لفظ دو طرح سے پڑھا گیا ہے، تثنیہ کے صیغے سے (الكاذبين) اور جمع کے صیغے سے (الكاذبين) مذکورہ بالا ترجمہ تثنیہ کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ جمع کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہو گا: وہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ اس اختلاف سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (3) ان دو جھوٹوں سے مراد دو مدعی نبوت ہیں، مسیلمہ کذاب یمامہ (نجد) میں اور اسود عنسی یمن میں۔ دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت کا دعوی کر دیا تھا، اس لیے جس نے کوئی حدیث گھڑی تو گویا اس نے دعویٰ کیا کہ وہ نبی ہے کیونکہ قرآن کی طرح حدیث بھی ایک طرح سے وحی ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے الہام ہوتی ہے۔ جمع والا معنی کرنے سے مراد ہو گا کہ قیامت تک جتنے نبوت کا دعویٰ کرنے والے آئیں گے،وہ بھی ان میں سے ایک ہو گا۔ ایک حدیث میں آپ نے قیامت سے پہلے پہلے تیس کذاب و دجال (جھوٹے نبیوں) کا ذکر فرمایا ہے (مسند احمد:2/104) اور جھوٹی روایت گھڑنے والے کو ان کے ساتھ شمار کیا ہے۔ (4) لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ایسی روایت بیان کرنا جائز ہے تاکہ وہ اس سے دھوکا کھا کر اس پر عمل نہ کر بیٹھیں، کیونکہ اس صورت میں مقصود دھوکا دینا نہیں، بلکہ دھوکے سے بچانا ہوتا ہے۔
(1) جس طرح جھوٹی حدیث گھڑنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح اس جعلی حدیث کو دوسروں تک پہنچانا بھی بڑا جرم ہے۔ ایسی حدیث روایت کرنے والا اسے گھڑنے والے کے ساتھ گناہ میں شریک ہے، لہذا وہ بھی اسی وعیدکا مستحق ہے، جو حدیث گھڑنے والے کے حق مین وارد ہے، یعنی وہ جہنمی ہے۔ (2) (الكاذبين) حدیث کا یہ لفظ دو طرح سے پڑھا گیا ہے، تثنیہ کے صیغے سے (الكاذبين) اور جمع کے صیغے سے (الكاذبين) مذکورہ بالا ترجمہ تثنیہ کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ جمع کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہو گا: وہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ اس اختلاف سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (3) ان دو جھوٹوں سے مراد دو مدعی نبوت ہیں، مسیلمہ کذاب یمامہ (نجد) میں اور اسود عنسی یمن میں۔ دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت کا دعوی کر دیا تھا، اس لیے جس نے کوئی حدیث گھڑی تو گویا اس نے دعویٰ کیا کہ وہ نبی ہے کیونکہ قرآن کی طرح حدیث بھی ایک طرح سے وحی ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے الہام ہوتی ہے۔ جمع والا معنی کرنے سے مراد ہو گا کہ قیامت تک جتنے نبوت کا دعویٰ کرنے والے آئیں گے،وہ بھی ان میں سے ایک ہو گا۔ ایک حدیث میں آپ نے قیامت سے پہلے پہلے تیس کذاب و دجال (جھوٹے نبیوں) کا ذکر فرمایا ہے (مسند احمد:2/104) اور جھوٹی روایت گھڑنے والے کو ان کے ساتھ شمار کیا ہے۔ (4) لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ایسی روایت بیان کرنا جائز ہے تاکہ وہ اس سے دھوکا کھا کر اس پر عمل نہ کر بیٹھیں، کیونکہ اس صورت میں مقصود دھوکا دینا نہیں، بلکہ دھوکے سے بچانا ہوتا ہے۔