Book - حدیث 3784

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ ثَوَابِ الْقُرْآنِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي شَطْرَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَيَقُولُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَيَقُولُ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ فَيَقُولُ اللَّهُ مَجَّدَنِي عَبْدِي فَهَذَا لِي وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ يَعْنِي فَهَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ

ترجمہ Book - حدیث 3784

کتاب: اخلاق وآداب سے متعلق احکام ومسائل باب: قرآن مجید پڑھنے کاثواب حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ،آپ فرمارہے تھے : اللہ عزوجل فرماتا ہے :میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھاآدھا تقسیم کرلیا ہے ۔ وہ آدھی میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کے لئے۔اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو وہ مانگتاہے ۔ انہوں نے کہا : اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پڑھو بندہ کہتا ہے :(اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعَالَمِیۡنَ) سب تعریفیں جہانوں کے مالک اور پالنے والے کے لئے ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو وہ مانگے ۔ بندہ کہتا ہے :(اَلرَّحۡمٰنِ الرَّ حِیۡمِ) بہت مہربان، نہایت رحم کرنے والا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا کی اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو وہ مانگے ۔ بندہ کہتا ہے :(مَالِکِ یَوۡ مِ الدِّیۡنِ) جزا کے دن کا مالک ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :میرے بندے نے میری عظمت بیان کی ۔ یہ(سب تعریف)میرے لئےہے۔ اور یہ آیت میرے درمیان اور بندے کے درمیان نصف نصف ہے (یعنی جب)بندہ کہتا ہے :(اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ) ہم صرف تیرے ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ تو یہ میرے اور بندے کے درمیان نصف نصف ہے۔ اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو اس نے مانگا ۔ اور سورت کی (باقی ) آخری آیات میرے بندے کے لئے ہیں ۔(پھر) بندہ کہتا ہے :(اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ o صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡھِمۡ وَلاَ الضَّالِّیۡنَ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا، جن پر تیرا غضب نہیں ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے ۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) یہ میرے بندے کا حصہ ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو اس نے مانگا۔
تشریح : ۱۔سورہ فاتحہ سب سے عظیم سورت ہے۔۲۔ا للہ تعالیٰ نے اس سورت کو “نماز” فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تلاوت نماز کارکن ہے۔ ۳۔ اس حدیث سےاستدلال کیا گیا ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورہ فاتحہ کی آیت نہیں ۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صحیح حدیث میں اس بات کی قطعی طور پر صراحت اور وضاحت موجود ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورہ فاتحہ کی ایک مستقبل آیت ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (إذا قرأتم : ((الحمد لله )) فاقرءوا ((بسم الله الرحمن الرحيم)) إنها أم القرآن وأم الكتاب والسبع المثاني و((بسم الله الرحمن الرحيم)) إحداها]یعنی جب تم سورہ فاتحہ پڑھو تو بسم الله الرحمن الرحيم پڑھا کرو کیونکہ یہ (سورت فاتحہ) ام الکتاب اور السبع المثانی ہے اور (بسم ا لله الرحمن الرحيم) اس (سورہ فاتحہ) کی ایک آیت ہے۔ دیکھیے: (سلسلة الأحاديث الصحيحة ، المجلد الثالث ، ص : 179، حديث : 1183) دوسری سورتوں کے شروع میں جو بسم اللہ ہے وہ سورتوں کا جز نہیں ، تاہم یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی آیت ہے اور سورہ توبہ کے سوا ہر سورت کے ساتھ نازل ہوئی ہے ، اس لیے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ ۴۔ جہری نماز میں ایک لحاظ سے دعا ہے کیونکہ اللہ کی تعریف سے مقصود اس کی رضا اور قرب کا حصول ہوتا ہے اور حمد و ثنا کرنے والے کو یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ ۲۔ نمازی کو اگرچہ اسلام کےذریعے سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے اس کے باوجود انسان کو زندگی میں ہر قدم پرا اللہ کی رہنمائی اور توفیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بندہ نماز میں سورہ فاتحہ کے ذریعے سےاللہ سے ہدایت کی درخواست کرتا رہے۔ واللہ أعلم۔ ۱۔سورہ فاتحہ سب سے عظیم سورت ہے۔۲۔ا للہ تعالیٰ نے اس سورت کو “نماز” فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تلاوت نماز کارکن ہے۔ ۳۔ اس حدیث سےاستدلال کیا گیا ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورہ فاتحہ کی آیت نہیں ۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صحیح حدیث میں اس بات کی قطعی طور پر صراحت اور وضاحت موجود ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورہ فاتحہ کی ایک مستقبل آیت ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (إذا قرأتم : ((الحمد لله )) فاقرءوا ((بسم الله الرحمن الرحيم)) إنها أم القرآن وأم الكتاب والسبع المثاني و((بسم الله الرحمن الرحيم)) إحداها]یعنی جب تم سورہ فاتحہ پڑھو تو بسم الله الرحمن الرحيم پڑھا کرو کیونکہ یہ (سورت فاتحہ) ام الکتاب اور السبع المثانی ہے اور (بسم ا لله الرحمن الرحيم) اس (سورہ فاتحہ) کی ایک آیت ہے۔ دیکھیے: (سلسلة الأحاديث الصحيحة ، المجلد الثالث ، ص : 179، حديث : 1183) دوسری سورتوں کے شروع میں جو بسم اللہ ہے وہ سورتوں کا جز نہیں ، تاہم یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی آیت ہے اور سورہ توبہ کے سوا ہر سورت کے ساتھ نازل ہوئی ہے ، اس لیے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ ۴۔ جہری نماز میں ایک لحاظ سے دعا ہے کیونکہ اللہ کی تعریف سے مقصود اس کی رضا اور قرب کا حصول ہوتا ہے اور حمد و ثنا کرنے والے کو یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ ۲۔ نمازی کو اگرچہ اسلام کےذریعے سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے اس کے باوجود انسان کو زندگی میں ہر قدم پرا اللہ کی رہنمائی اور توفیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بندہ نماز میں سورہ فاتحہ کے ذریعے سےاللہ سے ہدایت کی درخواست کرتا رہے۔ واللہ أعلم۔