كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْأَسْمَاءِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ الرُّكَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُسَمِّيَ رَقِيقَنَا أَرْبَعَةَ أَسْمَاءٍ أَفْلَحُ وَنَافِعٌ وَرَبَاحٌ وَيَسَارٌ
کتاب: اخلاق وآداب سے متعلق احکام ومسائل
باب: ناپسندیدہ نام
حضرت سمرہ بنت جندب ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے غلاموں کے چار نام رکھنے سے منع فرمایا: أفلح،نافع،رَبَاح،یَسَار۔
تشریح :
ایک حدیث میں اس ممانعت کی یہ حکمت بیان کی گئی ہے : “کیونکہ تو کہے گا:کیا وہ یہاں موجود ہے ؟ وہ نہیں ہوگا تو (جواب دینے والا ) کہے گا: نہیں۔”(صحيح المسلم ، الأدب ، باب كراهية التسمية بالأسماء القبيحة ، وبنافع و نحوه ، حديث : 2132) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ گھر میں نافع ہے اور جواب میں کہا جائے کہ موجود نہیں ۔گویا آپ نے یہ کہا کہ گھر میں فائدہ دینے والا کوئی شخص موجود نہیں ۔سب نکمے ہیں۔ اگرچہ متکلم کا یا مقصد نہیں ہوگا ، تاہم ظاہری طور پر ایک نا مناسب بات بنتی ہے، لہذا ایسے نام رکھنا مکروہ ہے، لیکن حرام نہیں۔
ایک حدیث میں اس ممانعت کی یہ حکمت بیان کی گئی ہے : “کیونکہ تو کہے گا:کیا وہ یہاں موجود ہے ؟ وہ نہیں ہوگا تو (جواب دینے والا ) کہے گا: نہیں۔”(صحيح المسلم ، الأدب ، باب كراهية التسمية بالأسماء القبيحة ، وبنافع و نحوه ، حديث : 2132) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ گھر میں نافع ہے اور جواب میں کہا جائے کہ موجود نہیں ۔گویا آپ نے یہ کہا کہ گھر میں فائدہ دینے والا کوئی شخص موجود نہیں ۔سب نکمے ہیں۔ اگرچہ متکلم کا یا مقصد نہیں ہوگا ، تاہم ظاہری طور پر ایک نا مناسب بات بنتی ہے، لہذا ایسے نام رکھنا مکروہ ہے، لیکن حرام نہیں۔