Book - حدیث 3706

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ الِاسْتِئْذَانِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَانْصَرَفَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ مَا رَدَّكَ قَالَ اسْتَأْذَنْتُ الِاسْتِئْذَانَ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا فَإِنْ أُذِنَ لَنَا دَخَلْنَا وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا رَجَعْنَا قَالَ فَقَالَ لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ فَنَاشَدَهُمْ فَشَهِدُوا لَهُ فَخَلَّى سَبِيلَهُ

ترجمہ Book - حدیث 3706

کتاب: اخلاق وآداب سے متعلق احکام ومسائل باب: اجازت طلب کرنا حضرت سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عمر ؓ سے اندر آنے کی تین باراجازت طلب کی ۔انہیں اجازت نہ ملی ،چنانچہ وہ واپس ہوگئے ۔ حضرت عمر ؓ نے انہیں کہلوابھیجا :آپ واپس کیوں چلے گئے ؟انہوں نے فرمایا:میں نے آپ سے اس انداز سے تین بار اجازت طلب کی تھی جس طرح رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا ہے ۔(اس طرح اجازت طلب کرنے کے بعد)اگر ہمیں اجازت ملے تو داخل ہوں اور اگر ہمیں اجازت نہ دی جائے تو پلٹ جائیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا:تم (اپنے)اس (بیان)پر گواہ پیش کرو گے ورنہ میں تمہیں ضرور سزا دوں گا ۔ وہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے اور ان سے (گواہی دینے کی)درخواست کی ، انہوں نے ابو موسیٰ ؓ کے حق میں گواہی دی تو (حضرت عمر ؓ نے) انہیں چھوڑ دیا۔
تشریح : ۱ ۔ کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا منع ہے۔ ۲۔ اجازت طلب کرنے کا طریقہ یہ ۔ السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتاو ہوں؟ (وسنن أبى داؤد باب كيف : الاستئدان حديث :5177) ۳۔ اگر ایک بار اجازت مانگنے پر جواب نہ ملے تو دوسری اور تیسری بار اجازت طلب کرنی چاہیے۔ آج کل اجازت مانگنے کا طریقہ مختلف ہو گیا ہے جیسے گھنٹی بجا بجا کر سارے محلے کو پریشان نہ کیا جائے۔۴۔ اگر تین بار اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ ملے تو اہل خانہ سے ناراض ہوئے بغیر واپس ہو جانا چاہیے۔ ممکن ہے صاحب خانہ گھر میں موجود نہ ہو کیا کوئی ایسی معقول وجہ ہو جس کی بنا پر وہ اجازت نہ دے رہا ہو۔۵۔ حضرت عمرؓ نے گواہ اس لیے طلب فرمایا کہ وہ مزید اطمینان چاہتے تھے۔اور اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ جب دیکھیں گے کہ عمرؓ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی غیر ذمہ دار لوگ کا رویہ رکھتے ہیں تو ہر شخص بالا تحقیق احادیث بیان کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔اس طرح غیرذمہ دار لوگ غلط الفاظ کے ساتھ یا اپنے پاس سے بنا کر احادیث بیان نہیں کریں گے۔۶۔ حدیث دین کی بنیاد ہے لہذا صحیح اور ضعیف میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔۷۔ احادیث کی کتابوں میں ضعیف احادیث موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ حدیث ہر حدیث کے ساتھ سند بیان ک کرتے تھے جس سے سامعین کو حدیث کے درجے کا علم ہو جاتا تھا۔بعض اوقات اس لیے ضعیف حدیث بیان کر دیتے تھے کہ ممکن ہے اس حدیث کی دوسری سند مل جائے جس سے اس کا ضعف ختم ہو کر حدیث قابل قبول ہو جائے تا ہم ہر وہ حدیث جو ایک سے زیادہ سندوں سے مروی ہوقابل قبول نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے بعض شروط کا پایا جانا ضروری ہے جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ۱ ۔ کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا منع ہے۔ ۲۔ اجازت طلب کرنے کا طریقہ یہ ۔ السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتاو ہوں؟ (وسنن أبى داؤد باب كيف : الاستئدان حديث :5177) ۳۔ اگر ایک بار اجازت مانگنے پر جواب نہ ملے تو دوسری اور تیسری بار اجازت طلب کرنی چاہیے۔ آج کل اجازت مانگنے کا طریقہ مختلف ہو گیا ہے جیسے گھنٹی بجا بجا کر سارے محلے کو پریشان نہ کیا جائے۔۴۔ اگر تین بار اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ ملے تو اہل خانہ سے ناراض ہوئے بغیر واپس ہو جانا چاہیے۔ ممکن ہے صاحب خانہ گھر میں موجود نہ ہو کیا کوئی ایسی معقول وجہ ہو جس کی بنا پر وہ اجازت نہ دے رہا ہو۔۵۔ حضرت عمرؓ نے گواہ اس لیے طلب فرمایا کہ وہ مزید اطمینان چاہتے تھے۔اور اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ جب دیکھیں گے کہ عمرؓ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی غیر ذمہ دار لوگ کا رویہ رکھتے ہیں تو ہر شخص بالا تحقیق احادیث بیان کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔اس طرح غیرذمہ دار لوگ غلط الفاظ کے ساتھ یا اپنے پاس سے بنا کر احادیث بیان نہیں کریں گے۔۶۔ حدیث دین کی بنیاد ہے لہذا صحیح اور ضعیف میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔۷۔ احادیث کی کتابوں میں ضعیف احادیث موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ حدیث ہر حدیث کے ساتھ سند بیان ک کرتے تھے جس سے سامعین کو حدیث کے درجے کا علم ہو جاتا تھا۔بعض اوقات اس لیے ضعیف حدیث بیان کر دیتے تھے کہ ممکن ہے اس حدیث کی دوسری سند مل جائے جس سے اس کا ضعف ختم ہو کر حدیث قابل قبول ہو جائے تا ہم ہر وہ حدیث جو ایک سے زیادہ سندوں سے مروی ہوقابل قبول نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے بعض شروط کا پایا جانا ضروری ہے جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔