كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ التَّغْلِيظِ فِي تَعَمُّدِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: رسول اللہ ﷺپر جان بوجھ کر جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے
حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ بولا اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنالے۔’’
تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایت کو موضوع کہتے ہیں۔ موضوع روایت کے متعلق چند اصول درج ذیل ہیں: ٭ موضوع روایت کو بیان کرنا بالاتفاق حرام ہے، ہاں تنبیہ کی غرض سے بیان کرنا درست ہے۔ ٭ موضوع روایت کو پہچاننے کے لیے چند قواعد درج ذیل ہیں: (الف) جھوٹا شخص اقرار کر لے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر فلاں فلاں جھوٹ گھڑا ہے جیسا کہ ابوعصمہ نوح بن ابی مریم نے قرآنی سورتوں کے فضائل گھڑے تھے اور اس کا اقرار بھی کیا تھا۔ (ب) ایسے اساتذہ سے سننے کا دعویٰ کرے جو اس کی پیدائش سے قبل فوت ہو گئے ہوں یا ان سے زندگی بھر ملاقات نہ ہوئی ہو۔ (ج) کوئی شخص اپنے گروہ کے فضائل اور مخالفین کی مذمت میں روایت بیان کرے۔ (د) روایت کے الفاظ انتہائی رکیک ہوں کہ زبان نبوی سے ان کا نکلنا محال ہو۔ ٭ موضوع روایات کو گھڑنے کے چند اسباب علمائے کرام نے بیان کیے ہیں۔ موضوع روایت کو بیان کرنا یا فضائل اعمال میں ان کو قابل عمل سمجھنا یا لوگوں کو اس کی تبلیغ کرنا، ان اسباب سے ان کی قباحتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلا: اپنے مذہب کی حمایت اور دوسرے مذہب کی مذمت میں احادیث گھڑنا۔ حکمرانوں کا تقرب حاصل کرنا۔ اسلام میں طعن و تشنیع، طلبِ رزق، شہرت کا حصول وغیرہ۔ ٭ موضوع روایات سے عصمت انبیاء پر حرف آتا ہے۔ ائمہ و علماء کی بے ادبی ہوتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دھندلا جاتا ہے، نیز بدعات کے فروغ کا ایک اہم سبب موضوع روایات بھی ہیں، لہذا ان روایات کو بیان کرنا بالکل حرام ہے۔٭ موضوع روایات کی قباحت واضح کرنے کے لیے چند مثالیں: (الف) عمر بن موسیٰ نامی جھوٹے نے نبی علیہ السلام پر یہ بہتان باندھا کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب غصے مین ہوتا ہے تو وحی عربی زبان میں نازل کرتا ہے اور جب راضی ہوتا ہے تو وحی فارسی میں نازل کرتا ہے۔ اس کے جواب میں اسماعیل نامی کذاب نے یہ روایت گھڑی: اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ زبان فارسی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہے۔ (ب) مامون بن احمد دجال نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مذمت اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں یہ روایت بنائی ہے، آپ نے فرمایا: میری امت میں ایک شخص محمد بن ادریس ہو گا جو میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ نقصان دہ ہے، جبکہ ایک شخص ابوحنیفہ ہو گا وہ میری امت کا سراج ہے۔ ٭ موضوع روایات کی معرفت کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ نہایت مفید ہے: ٭ كتاب الموضوعات/لابي الفرج عبدالرحمٰن بن علي بن الجوزي. ٭اللالي المصنوعة/لامام السيوطي. ٭ سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة/للشيخ الالباني.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایت کو موضوع کہتے ہیں۔ موضوع روایت کے متعلق چند اصول درج ذیل ہیں: ٭ موضوع روایت کو بیان کرنا بالاتفاق حرام ہے، ہاں تنبیہ کی غرض سے بیان کرنا درست ہے۔ ٭ موضوع روایت کو پہچاننے کے لیے چند قواعد درج ذیل ہیں: (الف) جھوٹا شخص اقرار کر لے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر فلاں فلاں جھوٹ گھڑا ہے جیسا کہ ابوعصمہ نوح بن ابی مریم نے قرآنی سورتوں کے فضائل گھڑے تھے اور اس کا اقرار بھی کیا تھا۔ (ب) ایسے اساتذہ سے سننے کا دعویٰ کرے جو اس کی پیدائش سے قبل فوت ہو گئے ہوں یا ان سے زندگی بھر ملاقات نہ ہوئی ہو۔ (ج) کوئی شخص اپنے گروہ کے فضائل اور مخالفین کی مذمت میں روایت بیان کرے۔ (د) روایت کے الفاظ انتہائی رکیک ہوں کہ زبان نبوی سے ان کا نکلنا محال ہو۔ ٭ موضوع روایات کو گھڑنے کے چند اسباب علمائے کرام نے بیان کیے ہیں۔ موضوع روایت کو بیان کرنا یا فضائل اعمال میں ان کو قابل عمل سمجھنا یا لوگوں کو اس کی تبلیغ کرنا، ان اسباب سے ان کی قباحتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلا: اپنے مذہب کی حمایت اور دوسرے مذہب کی مذمت میں احادیث گھڑنا۔ حکمرانوں کا تقرب حاصل کرنا۔ اسلام میں طعن و تشنیع، طلبِ رزق، شہرت کا حصول وغیرہ۔ ٭ موضوع روایات سے عصمت انبیاء پر حرف آتا ہے۔ ائمہ و علماء کی بے ادبی ہوتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دھندلا جاتا ہے، نیز بدعات کے فروغ کا ایک اہم سبب موضوع روایات بھی ہیں، لہذا ان روایات کو بیان کرنا بالکل حرام ہے۔٭ موضوع روایات کی قباحت واضح کرنے کے لیے چند مثالیں: (الف) عمر بن موسیٰ نامی جھوٹے نے نبی علیہ السلام پر یہ بہتان باندھا کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب غصے مین ہوتا ہے تو وحی عربی زبان میں نازل کرتا ہے اور جب راضی ہوتا ہے تو وحی فارسی میں نازل کرتا ہے۔ اس کے جواب میں اسماعیل نامی کذاب نے یہ روایت گھڑی: اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ زبان فارسی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہے۔ (ب) مامون بن احمد دجال نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مذمت اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں یہ روایت بنائی ہے، آپ نے فرمایا: میری امت میں ایک شخص محمد بن ادریس ہو گا جو میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ نقصان دہ ہے، جبکہ ایک شخص ابوحنیفہ ہو گا وہ میری امت کا سراج ہے۔ ٭ موضوع روایات کی معرفت کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ نہایت مفید ہے: ٭ كتاب الموضوعات/لابي الفرج عبدالرحمٰن بن علي بن الجوزي. ٭اللالي المصنوعة/لامام السيوطي. ٭ سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة/للشيخ الالباني.