Book - حدیث 3690

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ الْإِحْسَانِ إِلَى الْمَمَالِيكِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ

ترجمہ Book - حدیث 3690

کتاب: اخلاق وآداب سے متعلق احکام ومسائل باب: غلاموں سے حسن سلوک کا بیان حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (غلا م) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ نے تمہارے زیر دست (ماتحت) بنادیا ہے ، لہٰذا جو کھانا تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤاور جو(لباس) خود پہنتے ہو اس میں سے انہیں پہناؤ۔اور ان کو وہ کام کرنے کا حکم نہ دو جو ان پر غالب آجائے ۔ اور اگر (ضرورت کے تحت)انہیں ایسا حکم دو تو (اس کی انجام دہی میں خود بھی)ان کی مدد کرو۔
تشریح : ۱۔اسلام میں غلام بنانا ممنوع نہیں تاہم غلام کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ آزاد انسان کے بہت قریب ہو جاتا ہےاس کے علاوہ غلام کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ ۲۔ بہت سی صورتوں میں غلام کوآزاد کرنا مسلمانوں کے لیے یا خود غلام کے لیے تکلیف یا نقصان کا باعث ہو سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذينَ يَبتَغونَ الكِتابَ مِمّا مَلَكَت أَيمانُكُم فَكاتِبوهُم إِن عَلِمتُم فيهِم خَيرً‌ا﴾(النور 24: 33) اور تمہارے جو لونڈی غلام مکاتبت (آزادی کا معاہدہ) کرنا چاہیں تو ان سے آزادی کا معاہدہ کر لو اگر تمہیں ان کے اندر بھلائی معلوم ہو۔ اس لیے غیر مسلم یا بری عادتوں میں مبتلا غلام کو آزاد کرنے کی بجائے غلام ہی رکھنے میں اس کا اور معاشرے کا فائدہ ہے۔ ۳۔ غلام کے انسانی حقوق کا خیال رکھنا مالک کا فرض ہے۔ ۴۔غلام کے لیے مناسب غذا ، مناسب لباس اور رہائش مہیا کرنا آقا کی ذمہ داری ہے، اس کے عوض وہ آقا کی خدمت کرے گا اور روز مرہ معاملات میں اس سے تعاون کرے گا۔ ۵۔ اگر غلام کے ذمے ایسا کام لگایا جائے جو وہ اکیلا انجام نہ دے سکتا ہو تو مالک کا فرض ہے کہ خود اس کے ساتھ مل کر کام کرے یا اسے مدد کار غلام نہیں تاہم وہ حالات کی وجہ سے مالک کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے حقوق غلاموں سے زیادہ ہیں۔ ان اسے ان کی طاقت سے زیادہ کام لیناکم آرام کا موقع دینا ان کی عزت نفس مجروح کران اور تخواہ دینے میں بلاوجہ تاخیر کرنایہ سب کام حرام ہیں۔ ۱۔اسلام میں غلام بنانا ممنوع نہیں تاہم غلام کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ آزاد انسان کے بہت قریب ہو جاتا ہےاس کے علاوہ غلام کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ ۲۔ بہت سی صورتوں میں غلام کوآزاد کرنا مسلمانوں کے لیے یا خود غلام کے لیے تکلیف یا نقصان کا باعث ہو سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذينَ يَبتَغونَ الكِتابَ مِمّا مَلَكَت أَيمانُكُم فَكاتِبوهُم إِن عَلِمتُم فيهِم خَيرً‌ا﴾(النور 24: 33) اور تمہارے جو لونڈی غلام مکاتبت (آزادی کا معاہدہ) کرنا چاہیں تو ان سے آزادی کا معاہدہ کر لو اگر تمہیں ان کے اندر بھلائی معلوم ہو۔ اس لیے غیر مسلم یا بری عادتوں میں مبتلا غلام کو آزاد کرنے کی بجائے غلام ہی رکھنے میں اس کا اور معاشرے کا فائدہ ہے۔ ۳۔ غلام کے انسانی حقوق کا خیال رکھنا مالک کا فرض ہے۔ ۴۔غلام کے لیے مناسب غذا ، مناسب لباس اور رہائش مہیا کرنا آقا کی ذمہ داری ہے، اس کے عوض وہ آقا کی خدمت کرے گا اور روز مرہ معاملات میں اس سے تعاون کرے گا۔ ۵۔ اگر غلام کے ذمے ایسا کام لگایا جائے جو وہ اکیلا انجام نہ دے سکتا ہو تو مالک کا فرض ہے کہ خود اس کے ساتھ مل کر کام کرے یا اسے مدد کار غلام نہیں تاہم وہ حالات کی وجہ سے مالک کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے حقوق غلاموں سے زیادہ ہیں۔ ان اسے ان کی طاقت سے زیادہ کام لیناکم آرام کا موقع دینا ان کی عزت نفس مجروح کران اور تخواہ دینے میں بلاوجہ تاخیر کرنایہ سب کام حرام ہیں۔