Book - حدیث 3555

كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ قَالَ وَمَا الْبُرْدَةُ قَالَ الشَّمْلَةُ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي لِأَكْسُوَكَهَا فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا فَخَرَجَ عَلَيْنَا فِيهَا وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ فَجَاءَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَنَ هَذِهِ الْبُرْدَةَ اكْسُنِيهَا قَالَ نَعَمْ فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاهَا وَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ وَاللَّهِ مَا أَحْسَنْتَ كُسِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَّاهَا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا فَقَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِأَلْبَسَهَا وَلَكِنْ سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِتَكُونَ كَفَنِي فَقَالَ سَهْلٌ فَكَانَتْ كَفَنَهُ يَوْمَ مَاتَ

ترجمہ Book - حدیث 3555

کتاب: لباس سے متعلق احکام ومسائل باب: رسول اللہ ﷺ کا لباس حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھ سے بنی ہے تاکہ آپ کو پہناوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر لے لی کیونکہ آپ کو ضرورت تھی ۔ آپ ﷺ گھر سے تشریف لائے تو وہ چادر تہبند کے طور ہر پہن رکھی تھی ۔فلاں آدمی آیا ۔ حضرت سہل ؓ نے اس دن اس شخص کا نام بھی لیا تھا (بعد میں راوی کو یاد نہیں رہا)اس آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ چادر کتنی اچھی ہے مجھے عنایت فرمادیجیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا جب آپ گھر تشریف کے گئے تو وہ چادر تہہ کر کے اس صحابی کو بھیج دی ۔ لوگوں نے اسے کہا: اللہ کی قسم ! تو نے اچھا نہیں کیا ۔ یہ چادر نبی ﷺ کی خدمے میں پیش کی گئی تھی ۔ وہ تو نے آپ سے مانگ لی حالانکہ تجھے معلوم تھا کہ آپ ﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے ۔ اس نے کہا قسم ہے اللہ کی ! میں نے آپ سے یہ چادر پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ اس لئے مانگی ہے وہ میراکفن بنے۔ حضرت سہل بیان کرتے ہیں:جس دن وہ صاحب فوت ہوئے‘وہ چادر(بھی) ان کا کفن تھی۔
تشریح : ۱ ۔تحفہ دینا اور تحفہ قبول کرنا اچھے اخلاق میں شامل ہے۔ ۲ ۔ عورتیں دستکاری کے کام کر کے گھر کی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ پردے کے تقاضے کما حقہ پورے ہو سکیں۔ ۳۔ کوئی چیز اگر کوئی شخص مانگ لے تو سخاوت کا تقاضہ ہے کہ اسے دے دی جائے اگر چہ خود کو ضرورت ہو۔ ۴ ۔ رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے مس ہونے والی چیزحصول برکت کے لئے اپنے پاس رکھنا یا استعمال کرنا درست ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ہے جب یہ یقینی طور پر ثاپب ہو کہ اس کا تعلق نبی ﷺ کی ذات سے رہ چکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط اور گرامی نامے بھیجے تھے ان کے علاوہ اب دنیا میں ایسی کسی چیز کا قطعاَََ َکوئی وجود نہیں ہے۔یہ جو عوام الناس میں ْ ْموئے مبارکٗ ٗوغیرہ قسم کی اشیاءمشہور کر دی گئی ہیں بالکل بے اسلی اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ ایسی تمام اشیاء کے متعلق دعویٰ با لکل بلا دلیل ہے۔ جناب رسول کریم ﷺ سے متعلق کوئی بھی چیز ازقسم:عصا عمامہ موئے مبارک اور تعلین وغیرہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں کہیں موجود نہیں۔ یہ سب من گھڑت اور خود ساختہ قصے کہانیاں ہیں۔واللہ اءعلم۔ ۵ ۔سلف صالحین نے کسی صحابی یا تابعی سے منسوب چیز کو بطور تبرک محفوظ نہیں رکھا۔جو چیزیں بعض صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہیں ان میں سے اکثر کی ان حضرات کی طرف نسبت درست نہیں۔ ۱ ۔تحفہ دینا اور تحفہ قبول کرنا اچھے اخلاق میں شامل ہے۔ ۲ ۔ عورتیں دستکاری کے کام کر کے گھر کی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ پردے کے تقاضے کما حقہ پورے ہو سکیں۔ ۳۔ کوئی چیز اگر کوئی شخص مانگ لے تو سخاوت کا تقاضہ ہے کہ اسے دے دی جائے اگر چہ خود کو ضرورت ہو۔ ۴ ۔ رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک سے مس ہونے والی چیزحصول برکت کے لئے اپنے پاس رکھنا یا استعمال کرنا درست ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ہے جب یہ یقینی طور پر ثاپب ہو کہ اس کا تعلق نبی ﷺ کی ذات سے رہ چکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط اور گرامی نامے بھیجے تھے ان کے علاوہ اب دنیا میں ایسی کسی چیز کا قطعاَََ َکوئی وجود نہیں ہے۔یہ جو عوام الناس میں ْ ْموئے مبارکٗ ٗوغیرہ قسم کی اشیاءمشہور کر دی گئی ہیں بالکل بے اسلی اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ ایسی تمام اشیاء کے متعلق دعویٰ با لکل بلا دلیل ہے۔ جناب رسول کریم ﷺ سے متعلق کوئی بھی چیز ازقسم:عصا عمامہ موئے مبارک اور تعلین وغیرہ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں کہیں موجود نہیں۔ یہ سب من گھڑت اور خود ساختہ قصے کہانیاں ہیں۔واللہ اءعلم۔ ۵ ۔سلف صالحین نے کسی صحابی یا تابعی سے منسوب چیز کو بطور تبرک محفوظ نہیں رکھا۔جو چیزیں بعض صحابہ ؓ کی طرف منسوب ہیں ان میں سے اکثر کی ان حضرات کی طرف نسبت درست نہیں۔