كِتَابُ الطِّبِّ بَابُ مَنِ اكْتَوَى حسن - دون " ميتة سوء ... " حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ عَمِّي يَحْيَى، وَمَا أَدْرَكْتُ رَجُلًا مِنَّا بِهِ شَبِيهًا، يُحَدِّثُ النَّاسَ أَنَّ أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ، وَهُوَ جَدُّ مُحَمَّدٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ، أَنَّهُ أَخَذَهُ وَجَعٌ فِي حَلْقِهِ، يُقَالُ لَهُ الذُّبْحَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأُبْلِغَنَّ أَوْ لَأُبْلِيَنَّ فِي أَبِي أُمَامَةَ عُذْرًا» فَكَوَاهُ بِيَدِهِ فَمَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِيتَةَ سَوْءٍ لِلْيَهُودِ، يَقُولُونَ: أَفَلَا دَفَعَ عَنْ صَاحِبِهِ، وَمَا أَمْلِكُ لَهُ، وَلَا لِنَفْسِي شَيْئًا
کتاب: طب سے متعلق احکام ومسائل
باب: خود کو داغنا
حضرت محمدبن عبدالرحمن بن سعد بن زرارہ انصاری اپنے چچا یحی بن سعد بن زرارہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ محمد ؓ کے نانا حضرت سعد بن زرارہ کو حلق میں درد ہوا جسے ذبح کہتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’میں ابو امامہ (سعد بن زرارہ ؓ) کےعلاج کی پوری کوشش کروں گا حتی کہ معاملہ میرے بس سے باہر ہوجائے ۔‘‘نبی ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ نبی ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغا لیکن وہ (جان بر نہ ہو سکے اور ) فوت ہوگئے ۔
نبی ﷺ نے فرمایا : ’’یہودیوں کوبری موت نصیب ہو ! وہ کہتے ہیں : اس (نبی ﷺ ) نے اپنےساتھی کی جان کیوں نہ بچالی ؟ میں تو اس کےلیے یا اپنے ایے ( اللہ کے فیصلےکےمقابلے میں ) کچھ اختیار نہیں رکھتا ۔‘‘
تشریح :
1۔ذبح ذال کی پیش اور با کی زیر یا سکون سے ہے۔یہ گلے میں ہونے والا ایک درد یا زخم ہے۔جس کے مریض کے بچنے کی امید بہت کم ہوتی ہے۔2۔مریض کے علاج کی پوری کوش کرنی چاہیے۔تاکہ دل میں یہ خیال نہ کیاجائے کہ اگر علاج کیاجاتا تو شاید مریض اس بیماری سے نہ مرتا۔3۔موت وحیات صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔نبی کریمﷺ کے اختیار میں بھی کسی کی موت اور زندگی نہیں۔4۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکورہ روایت کو اس جملے (میتۃ سوء۔۔۔) یہودیوں کوبری موت نصیب ہو کے سوا باقی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔دیکھئے۔(ضعیف سنن ابن ماجہ رقم :764)
1۔ذبح ذال کی پیش اور با کی زیر یا سکون سے ہے۔یہ گلے میں ہونے والا ایک درد یا زخم ہے۔جس کے مریض کے بچنے کی امید بہت کم ہوتی ہے۔2۔مریض کے علاج کی پوری کوش کرنی چاہیے۔تاکہ دل میں یہ خیال نہ کیاجائے کہ اگر علاج کیاجاتا تو شاید مریض اس بیماری سے نہ مرتا۔3۔موت وحیات صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔نبی کریمﷺ کے اختیار میں بھی کسی کی موت اور زندگی نہیں۔4۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکورہ روایت کو اس جملے (میتۃ سوء۔۔۔) یہودیوں کوبری موت نصیب ہو کے سوا باقی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔دیکھئے۔(ضعیف سنن ابن ماجہ رقم :764)