Book - حدیث 347

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ التَّشْدِيدِ فِي الْبَوْلِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ جَدِيدَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ

ترجمہ Book - حدیث 347

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: پیشاب سے انتہائی احتیاط کی تاکید سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دو نئی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:’’ ان دونوں( آدمیوں ) کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا ۔ ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کا عادی تھا۔‘‘
تشریح : 1)رسول اللہ ﷺ کو قبر کے اندر کے حالات سے آگاہ کردیا گیا ۔اس کی حیثیت ایک معجزے کی ہے اور معجزہ نبی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ممکن ہے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہو۔ 2۔اس واقعہ سے قبر میں عذاب کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ 3۔پیشاب سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم اور لباس کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچایا جائے اور پیشاب سے فارغ ہو کر مٹی یا پانی سے استنجا کیا جائے۔ 4۔یہاں پیشاب سے مراد انسان کا پیشاب ہے۔کیونکہ اس حدیث میں اپنے پیشاب سے کے الفاظ ہیں۔جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کے پیشاب سے بھی بچنا ضروری ہے،البتہ گائے بھینس وغیرہ جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کے بارے میں شریعت نے نرمی کی ہے تاہم صفائی کے نقطہ نظر سے ان کے پیشاب سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے 5۔ کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا کا مطلب یہ ہے کہ پیشاب سے بچنا مشکل کا م نہ تھا ۔اگر ذرا سی توجہ اور احتیاط سے کام لیتا تو پیشاب کے چھینٹوں سے خود کو بچاسکتا تھا۔ 6۔چغلی (نميمة) کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کی کہی ہوئی بات دوسرے کو بتائی جائے تاکہ دونوں میں جھگڑا ہوجائے یا انکی باہمی محبت ختم ہوجائے۔یہ بات سچ بھی ہو تو اس طرح لگائی بجھائی کے طور پر ایک دوسرے کو جا بتانا سخت گناہ ہے۔اور اگر جھوٹ ہوتو گناہ کی چناعت اور بڑھ جاتی ہے۔کسی کے عیوب اس کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا بھی چغلی(غیبت) اور بڑا گناہ ہے تاہم بعض اوقات کسی اوقات کی غیر موجودگی میں اس کے عیب کا ذکر جائز بھی ہوتا ہے۔علماء نے جائز غیبت میں چھ امور ذکر کیے ہیں: 1۔مظلوم کا حاکم یا کسی ایسے شخص کے پاس ظالم کی شکایت کرنا جو اسے سزا دے سکے یا ظلم سے منع کرے 2۔کسی کو برائی سے روکنے کے لیے دوسرے سے مدد حاصل کرنا مقصود ہو جب کہ یہ امید ہو کہ یہ شخص اسے برائی سے روک سکتا ہے۔ 3۔مسئلہ پوچھتے وقت صورت حال کی وضاحت کے لیے۔ 4۔مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے کسی کے شر سے بچانا مقصود ہو تو اس کا عیب بیان کرنا ضروری ہے مثلاً: حدیث کے راوی کا ضعف بیان کرنا یا جب کسی سے رشتہ ناتا کرنے کاروبار میں شراکت کرنے یا اس کے پاس امانت رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا جائے تو مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ اگر ایسا شخص اس قابل نہیں تو مشورہ لینے والے کو حقیقت حال سے آگاہ کردے۔ 5۔جو شخص سرعام گناہ یا بدعت کا ارتکاب کرتا ہو اس کے اس عیب کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا جائز ہے تاکہ سب لوگ مل جل کر اس کو اس سے منع کرسکیں۔ 6۔کوئی شخص کسی جسمانی نقص یا عیب کی وجہ سے خاص نام سے معروف ہوجائےتو اس شخص کا ذکر اس نام سے کیا جاسکتا ہے جیسے لنگڑا یا ٹنڈا وغیرہ،بشرطیکہ اس سے توہین مقصود نہ ہو (رياض الصالحين باب بيان ما يباح من الغيبة ) 1)رسول اللہ ﷺ کو قبر کے اندر کے حالات سے آگاہ کردیا گیا ۔اس کی حیثیت ایک معجزے کی ہے اور معجزہ نبی کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ممکن ہے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہو۔ 2۔اس واقعہ سے قبر میں عذاب کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ 3۔پیشاب سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم اور لباس کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچایا جائے اور پیشاب سے فارغ ہو کر مٹی یا پانی سے استنجا کیا جائے۔ 4۔یہاں پیشاب سے مراد انسان کا پیشاب ہے۔کیونکہ اس حدیث میں اپنے پیشاب سے کے الفاظ ہیں۔جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کے پیشاب سے بھی بچنا ضروری ہے،البتہ گائے بھینس وغیرہ جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کے بارے میں شریعت نے نرمی کی ہے تاہم صفائی کے نقطہ نظر سے ان کے پیشاب سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے 5۔ کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا کا مطلب یہ ہے کہ پیشاب سے بچنا مشکل کا م نہ تھا ۔اگر ذرا سی توجہ اور احتیاط سے کام لیتا تو پیشاب کے چھینٹوں سے خود کو بچاسکتا تھا۔ 6۔چغلی (نميمة) کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کی کہی ہوئی بات دوسرے کو بتائی جائے تاکہ دونوں میں جھگڑا ہوجائے یا انکی باہمی محبت ختم ہوجائے۔یہ بات سچ بھی ہو تو اس طرح لگائی بجھائی کے طور پر ایک دوسرے کو جا بتانا سخت گناہ ہے۔اور اگر جھوٹ ہوتو گناہ کی چناعت اور بڑھ جاتی ہے۔کسی کے عیوب اس کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا بھی چغلی(غیبت) اور بڑا گناہ ہے تاہم بعض اوقات کسی اوقات کی غیر موجودگی میں اس کے عیب کا ذکر جائز بھی ہوتا ہے۔علماء نے جائز غیبت میں چھ امور ذکر کیے ہیں: 1۔مظلوم کا حاکم یا کسی ایسے شخص کے پاس ظالم کی شکایت کرنا جو اسے سزا دے سکے یا ظلم سے منع کرے 2۔کسی کو برائی سے روکنے کے لیے دوسرے سے مدد حاصل کرنا مقصود ہو جب کہ یہ امید ہو کہ یہ شخص اسے برائی سے روک سکتا ہے۔ 3۔مسئلہ پوچھتے وقت صورت حال کی وضاحت کے لیے۔ 4۔مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے کسی کے شر سے بچانا مقصود ہو تو اس کا عیب بیان کرنا ضروری ہے مثلاً: حدیث کے راوی کا ضعف بیان کرنا یا جب کسی سے رشتہ ناتا کرنے کاروبار میں شراکت کرنے یا اس کے پاس امانت رکھنے کے بارے میں مشورہ کیا جائے تو مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ اگر ایسا شخص اس قابل نہیں تو مشورہ لینے والے کو حقیقت حال سے آگاہ کردے۔ 5۔جو شخص سرعام گناہ یا بدعت کا ارتکاب کرتا ہو اس کے اس عیب کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا جائز ہے تاکہ سب لوگ مل جل کر اس کو اس سے منع کرسکیں۔ 6۔کوئی شخص کسی جسمانی نقص یا عیب کی وجہ سے خاص نام سے معروف ہوجائےتو اس شخص کا ذکر اس نام سے کیا جاسکتا ہے جیسے لنگڑا یا ٹنڈا وغیرہ،بشرطیکہ اس سے توہین مقصود نہ ہو (رياض الصالحين باب بيان ما يباح من الغيبة )