Book - حدیث 3381

كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ بَابُ لُعِنَتِ الْخَمْرُ عَلَى عَشَرَةِ أَوْجُهٍ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبٍ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، أَوْ حَدَّثَنِي أَنَسٌ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشَرَةً: عَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَالْمَعْصُورَةَ لَهُ، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةَ لَهُ، وَبَائِعَهَا، وَالْمَبْيُوعَةَ لَهُ، وَسَاقِيَهَا، وَالْمُسْتَقَاةَ لَهُ، حَتَّى عَدَّ عَشَرَةً، مِنْ هَذَا الضَّرْبِ

ترجمہ Book - حدیث 3381

کتاب: مشروبات سے متعلق احکام ومسائل باب: شراب میں دس طرح پر لعنت ہے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘انہوں نے فرمایا :رسول اللہ ﷺنے شراب متعلق دس افراد پر لعنت فر ئی ہے :اسے نچوڑنے والے پر ‘نچڑوانے والے پر جس کے لئے نچو ڑی گئی ‘اسے اٹھا کر لے جانے والے پر ‘جس کے لئے اٹھا کر لے جائی گئی ‘اسے پلانے والے پر ‘اور جسے پلائی گئی حتیٰ کہ انہوں نے اس طرح کے دس افراد شمار کیے۔
تشریح : 1۔شراب نوشی اللہ کی نافرمانی اور کبیرہ گناہ ہے۔نیز شراب بہت سی خرابیوں کاباعث ہے۔2۔شراب سے کسی بھی انداز سے تعلق قائم ہونا اللہ کی رحمت سے دوری اور اللہ کی لعنت کا باعث ہے۔3۔نچز وانے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی ملازم کو حکم دیتا ہے۔کہ شراب بنانے کےلئے انگوروں کو نچوڑکررس نکالو۔اور نچوڑنے والا وہ ملازم ہے۔ جو اس حکم کی تعمیل کرتا ہے۔اور جس کے لئے نچوڑی گئی سے مراد وہ گاہک ہے۔ جس نے شراب بنانے والے سے معاہدہ کیاہے۔ کہ وہ تیار شدہ شراب خرید لے گا۔یا اس سے مراد وہ شخص ہے جسے پیش کرنے کےلئے شراب تیار کی گئی۔مثلا ً کوئی خاص مہمان دوست یا عزیز وغیرہ4۔ جس کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ سے مراد (الف) و ہ شخص بھی ہوسکتا ہے۔ جسے شراب پیش ک جانی مقصود ہے۔ خواہ وہ اسے پینا چاہتا ہویا خریدنا چاہتا ہو۔ اسے تحفہ کے طور پر دی جارہی ہو۔پہلی حدیث میں جس کے پاس اٹھا کر لے جائی گئی۔ کے بھی یہ سب مفہوم ہوسکتے ہیں۔جودوسری شق (ب) میں شامل ہیں۔5۔قیمت کھانے والے سے مراد وہ شخص ہے جس کو اس کی تجارت سے مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔6۔گناہ کے کام میں کسی کا تعاون بھی گناہ میں شریک ہونے کے برابر ہے۔ خواہ وہ تعاون بظا ہر معمولی ہو7۔جب یہ بات معلوم ہو یہ خیال ہو کہ فلاں کام سے فلاں گناہ تکمیل کو پہنچے گا تو اس کام کو بلا معاوضہ یا معاوضہ لے کر انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 1۔شراب نوشی اللہ کی نافرمانی اور کبیرہ گناہ ہے۔نیز شراب بہت سی خرابیوں کاباعث ہے۔2۔شراب سے کسی بھی انداز سے تعلق قائم ہونا اللہ کی رحمت سے دوری اور اللہ کی لعنت کا باعث ہے۔3۔نچز وانے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی ملازم کو حکم دیتا ہے۔کہ شراب بنانے کےلئے انگوروں کو نچوڑکررس نکالو۔اور نچوڑنے والا وہ ملازم ہے۔ جو اس حکم کی تعمیل کرتا ہے۔اور جس کے لئے نچوڑی گئی سے مراد وہ گاہک ہے۔ جس نے شراب بنانے والے سے معاہدہ کیاہے۔ کہ وہ تیار شدہ شراب خرید لے گا۔یا اس سے مراد وہ شخص ہے جسے پیش کرنے کےلئے شراب تیار کی گئی۔مثلا ً کوئی خاص مہمان دوست یا عزیز وغیرہ4۔ جس کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ سے مراد (الف) و ہ شخص بھی ہوسکتا ہے۔ جسے شراب پیش ک جانی مقصود ہے۔ خواہ وہ اسے پینا چاہتا ہویا خریدنا چاہتا ہو۔ اسے تحفہ کے طور پر دی جارہی ہو۔پہلی حدیث میں جس کے پاس اٹھا کر لے جائی گئی۔ کے بھی یہ سب مفہوم ہوسکتے ہیں۔جودوسری شق (ب) میں شامل ہیں۔5۔قیمت کھانے والے سے مراد وہ شخص ہے جس کو اس کی تجارت سے مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔6۔گناہ کے کام میں کسی کا تعاون بھی گناہ میں شریک ہونے کے برابر ہے۔ خواہ وہ تعاون بظا ہر معمولی ہو7۔جب یہ بات معلوم ہو یہ خیال ہو کہ فلاں کام سے فلاں گناہ تکمیل کو پہنچے گا تو اس کام کو بلا معاوضہ یا معاوضہ لے کر انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔