Book - حدیث 3312

كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابُ الْقَدِيدِ صحیح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَسَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَكَلَّمَهُ، فَجَعَلَ تُرْعَدُ فَرَائِصُهُ، فَقَالَ لَهُ: «هَوِّنْ عَلَيْكَ، فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ تَأْكُلُ الْقَدِيدَ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: إِسْمَاعِيلُ وَحْدَهُ، وَصَلَهُ

ترجمہ Book - حدیث 3312

کتاب: کھانوں سے متعلق احکام ومسائل باب: خشک گوشت کا بیان حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو انصاری)ؓ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا: ایک ےآدمی نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آ پ سے بات کرنے لگا۔(رسول اللہﷺ کے رعب کی وجہ سے )اس کے کندھے کانپنے لگے(اس پر کپکپی طاری ہو گئی)رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’گھبراؤ مت‘میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تو ایک ایسی(عام سی غریب)عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘ امام ابو عبد اللہ ابن ماجہ ؓ نے کہا:روایت کے راوی اسماعیل(بن ابو خالد) ہی نے اسے موصول بیان کیا ہے۔
تشریح : 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ شیخ البانی ﷫ نےاس پر کافی مفصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تصحیح حدیث والی رائے ہی درست ہے لہذا روایت دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے ۔ واللہ اعلم . تفصیل کےلیے دیکھیے : (سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانى رقم :1876، وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم :3312) 2۔ اہل عرب گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے لمبے ٹکڑے کاٹ کر نمک لگا کر دھوپ میں خشک کرلیا کرتے تھے ۔ اسے قدید کہتے ہیں ۔ بعدمیں ضرورت پڑنے پر اسے پکالیا جاتا ہے ۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس شخص کی گھبراہٹ دور ہوجائے جو اس پر نبیﷺ کی عظمت کے احساس سے طاری ہو گئی تھی ۔ 4۔ تواضع کے طور پراپنے آپ کو ایک عام انسان کے طور پر پیش کرنا اللہ کی نعمت کا انکار نہیں ۔ 5۔ بڑے عالم یا بڑے مقام پر فائز شخص کو عام لوگوں سے بات کرتے وقت ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ مانوس ہو جائیں اور آسانی سے اپنی بات کہہ سن سکیں۔ 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ شیخ البانی ﷫ نےاس پر کافی مفصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تصحیح حدیث والی رائے ہی درست ہے لہذا روایت دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے ۔ واللہ اعلم . تفصیل کےلیے دیکھیے : (سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانى رقم :1876، وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم :3312) 2۔ اہل عرب گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے لمبے ٹکڑے کاٹ کر نمک لگا کر دھوپ میں خشک کرلیا کرتے تھے ۔ اسے قدید کہتے ہیں ۔ بعدمیں ضرورت پڑنے پر اسے پکالیا جاتا ہے ۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس شخص کی گھبراہٹ دور ہوجائے جو اس پر نبیﷺ کی عظمت کے احساس سے طاری ہو گئی تھی ۔ 4۔ تواضع کے طور پراپنے آپ کو ایک عام انسان کے طور پر پیش کرنا اللہ کی نعمت کا انکار نہیں ۔ 5۔ بڑے عالم یا بڑے مقام پر فائز شخص کو عام لوگوں سے بات کرتے وقت ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ مانوس ہو جائیں اور آسانی سے اپنی بات کہہ سن سکیں۔