Book - حدیث 328

كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ النَّهْيِ عَنِ الْخَلَاءَ عَلَى قَارِعَةِ الطَّرِيقِ حسن حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْحِمْيَرِيَّ حَدَّثَهُ قَالَ كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَتَحَدَّثُ بِمَا لَمْ يَسْمَعْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَسْكُتُ عَمَّا سَمِعُوا فَبَلَغَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا وَأَوْشَكَ مُعَاذٌ أَنْ يَفْتِنَكُمْ فِي الْخَلَاءِ فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاذًا فَلَقِيَهُ فَقَالَ مُعَاذٌ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو إِنَّ التَّكْذِيبَ بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِفَاقٌ وَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ قَالَهُ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَ الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ وَالظِّلِّ وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ

ترجمہ Book - حدیث 328

کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: راستے پر قضاۓحاجت کی ممانعت کا بیان ابو سعید حمیری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا معاذ بن جبل ؓ وہ احادیث بیان کیا کرتےت ھے جو دوسرے صحابہ کرام ؓم نے نہیں سنی ہوتی تھیں، اور جو حدیثیں دوسروں نے سنی ہوتی تھیں معاذ ؓ انہیں بیان نہیں کرتے تھے۔ ان کی بیان کردہ کوئی حدیث عبداللہ بن عمر ؓ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرمان نہیں سنا۔ ممکن ہے سیدنا معاذ ؓ ( کے یہ حدیث بیان کرنے) کی وجہ سے تم لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جاؤ۔ یہ بات حضرت معاذ ؓ نے تک پہنچ گئی۔( ایک موقع پر) ان کی آپس میں ملاقات ہوئی تو معاذ ؓ نے فرمایا: اے عبداللہ بن عمرو! رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے جھوٹ بولنا منافقت ہے۔ جو شخص ایسی بات کرے گا ،خود گناہ گار ہو گا۔میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد مبارک سنا ہے:’’لعنت کا سبب بننے والے تین کاموں سے اجتناب کرو‘یعنی گھاٹ پر‘سائے میں اور راستے کے درمیان قضائے حاجت کرنے سے (پرہیز کرو-‘‘)
تشریح : : یہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک سندا ضعیف ہے،صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہےلیکن اس میں دو مقامات سے ممانعت کا ذکر ہے،گھاٹ کا ذکر نہیں۔دیکھیے ( صحیح مسلم الطھارہ باب النھی عن التخلی فی الطرق والظلال حدیث:٢٦٩) علاوہ ازیں شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے،اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول وبراز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔( تفصیل کے لیے دیکھیے: الارواءحدیث:62) 2۔ گھاٹ سے مراد دریا یا تالاب وغیرہ کا کنارہ ہےجہاں سے پانی لینے کے لیے یا دوسرے مقاصد کے لیے عام لوگوں کی آمدرفت ہو۔ 3۔ سائے سے مراد وہ سایہ ہے جہاں گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لیے لوگ ٹھرتے ہوں یہاں پاخانہ کرنے سے عام لوگوں کو تکلیف ہوگیاور وہ اس سائے سے فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔اگر کوئی درخت ایسی جگہ اگا ہواہو جہاں عام لوگوں کو آنے جانے کی ضرورت نہیں پرتی تو اس کے سائے میں قضائے حاجت کی گنجائش ہے جیسے کہ حدیث :338339) میں ذکر ہوگا۔ 3۔ راستے کے درمیان مراد یہ ہے کہ عین راستے میں قضائے حاجت نہ کی جائے۔جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو۔ہاں راستے سے ایک طرف ہٹ کر جہاں سے لوگ نہیں گزرتے فراغت حاصل کی جاسکتی ہے : یہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک سندا ضعیف ہے،صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہےلیکن اس میں دو مقامات سے ممانعت کا ذکر ہے،گھاٹ کا ذکر نہیں۔دیکھیے ( صحیح مسلم الطھارہ باب النھی عن التخلی فی الطرق والظلال حدیث:٢٦٩) علاوہ ازیں شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے،اس حدیث سے یہ استدلال صحیح ہے کہ گھاٹ سمیت ایسی تمام جگہوں پر بول وبراز کرنا صحیح نہیں جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔( تفصیل کے لیے دیکھیے: الارواءحدیث:62) 2۔ گھاٹ سے مراد دریا یا تالاب وغیرہ کا کنارہ ہےجہاں سے پانی لینے کے لیے یا دوسرے مقاصد کے لیے عام لوگوں کی آمدرفت ہو۔ 3۔ سائے سے مراد وہ سایہ ہے جہاں گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لیے لوگ ٹھرتے ہوں یہاں پاخانہ کرنے سے عام لوگوں کو تکلیف ہوگیاور وہ اس سائے سے فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔اگر کوئی درخت ایسی جگہ اگا ہواہو جہاں عام لوگوں کو آنے جانے کی ضرورت نہیں پرتی تو اس کے سائے میں قضائے حاجت کی گنجائش ہے جیسے کہ حدیث :338339) میں ذکر ہوگا۔ 3۔ راستے کے درمیان مراد یہ ہے کہ عین راستے میں قضائے حاجت نہ کی جائے۔جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو۔ہاں راستے سے ایک طرف ہٹ کر جہاں سے لوگ نہیں گزرتے فراغت حاصل کی جاسکتی ہے