Book - حدیث 3246

كِتَابُ الصَّيْدِ بَابُ الطَّافِي مِن صَيدِ البَحرِ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ، مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَحْرُ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحِلُّ مَيْتَتُهُ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْجَوَادِ أَنَّهُ قَالَ: «هَذَا نِصْفُ الْعِلْمِ، لِأَنَّ الدُّنْيَا بَرٌّ وَبَحْرٌ، فَقَدْ أَفْتَاكَ فِي الْبَحْرِ وَبَقِيَ الْبَرُّ»

ترجمہ Book - حدیث 3246

کتاب: شکار کے احکام ومسائل باب: سمندر کاشکار (مرکر پانی پر ) تیر آئے تو کیا حکم ہے ؟ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مرا ہو جانور حلال ہے۔‘‘ امام ابن ماجہ ؓ نے فرمایا: مجھے ابو عبیدہ جواد رحمۃ اللہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا: یہ حدیث آدھا علم ہے، اس لیے کہ دنیا برو بحر (خشکی اور سمندر) پر مشتمل ہے۔ بنیﷺ نے (اس حدیث کے ذریعے سے) سمندر کے بارے میں فتویٰ دے دیا، باقی خشکی رہ گئی (کہ خشکی کے کون سے جانور حرام ہیں اور کون سے حلال۔)
تشریح : 1۔ سمندر کے پانی ذائقہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہےاس لیے صحابی کواس کے بارے میں شک ہوا کہ اس سے وضو درست ہے یا نہیں تب رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ۔ (دیکھیے سنن ابن ماجہ حدیث 386۔388) 2۔ سمندر میں رہنے والا جانور سمندر میں مر جائے تب بھی حلال ہے ۔ اور با ہر نکالنے سے مر جائے تب بھی حلال ہے ۔ 3۔ مزید فوائد کےلیے ملاحظہ کیجیے : (سنن ابن ماجه الطهارۃ باب الوضوء بماء البحر حدیث :386۔388) 1۔ سمندر کے پانی ذائقہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہےاس لیے صحابی کواس کے بارے میں شک ہوا کہ اس سے وضو درست ہے یا نہیں تب رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ۔ (دیکھیے سنن ابن ماجہ حدیث 386۔388) 2۔ سمندر میں رہنے والا جانور سمندر میں مر جائے تب بھی حلال ہے ۔ اور با ہر نکالنے سے مر جائے تب بھی حلال ہے ۔ 3۔ مزید فوائد کےلیے ملاحظہ کیجیے : (سنن ابن ماجه الطهارۃ باب الوضوء بماء البحر حدیث :386۔388)