كِتَابُ الصَّيْدِ بَابُ الضَّبِّ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: نَادَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ، حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ مَضَبَّةٌ، فَمَا تَرَى فِي الضِّبَابِ قَالَ: «بَلَغَنِي أَنَّهُ، أُمَّةً مُسِخَتْ» فَلَمْ يَأْمُرْ بِهِ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ
کتاب: شکار کے احکام ومسائل
باب: سانڈے کا بیان
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو اصحاب سفہ میں سے ایک آدمی نے نبیﷺ کو مخاطب کر کے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے علاقے میں سانڈے بہت ہوتے ہیں۔ آپ کا سانڈوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ ایک قوم تھی جو مسخ کردی گئی۔‘‘ چنانچہ آپ نے نہ اسے کھانے کا حکم دیا، نہ اس سے منع فرمایا۔
تشریح :
1۔ [فماتری] آپ کا کیا خیال ہے ؟ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا کیا فیصلہ ہے یہ حلال ہے یاحرام ہے ؟
2۔ [بلغنی] مجھے یہ بات پہنچی ہے ۔ اس لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بات نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے سے معلوم نہیں ہوئی تھی بلکہ ممکن ہے علمائے یہود سے سنی ہو ۔ چونکہ ایسی باتوں کی تصدیق یا تکذیب نہیں کی جا سکتی جب تک وحی کے ذریعے سےان کا صحیح یا غلط ہونا معلوم نہ ہوجائے اس لیے نبی ﷺ نے دوٹوک فیصلہ نہیں فرمایا ۔
3۔ مشکوک چیز سے احتیاطاً اجتناب کیا جا سکتا ہے تاہم اسے صراحتاً حرام نہیں کہا جا سکتا۔
1۔ [فماتری] آپ کا کیا خیال ہے ؟ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا کیا فیصلہ ہے یہ حلال ہے یاحرام ہے ؟
2۔ [بلغنی] مجھے یہ بات پہنچی ہے ۔ اس لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بات نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے سے معلوم نہیں ہوئی تھی بلکہ ممکن ہے علمائے یہود سے سنی ہو ۔ چونکہ ایسی باتوں کی تصدیق یا تکذیب نہیں کی جا سکتی جب تک وحی کے ذریعے سےان کا صحیح یا غلط ہونا معلوم نہ ہوجائے اس لیے نبی ﷺ نے دوٹوک فیصلہ نہیں فرمایا ۔
3۔ مشکوک چیز سے احتیاطاً اجتناب کیا جا سکتا ہے تاہم اسے صراحتاً حرام نہیں کہا جا سکتا۔