كِتَابُ الذَّبَائِحِ بَابُ ذَكَاةِ النَّادِّ مِنَ الْبَهَائِمِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَدَّ بَعِيرٌ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لَهَا أَوَابِدَ - أَحْسَبُهُ قَالَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ - فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا، فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا»
کتاب: ذبیحہ سے متعلق احکام ومسائل
باب: بھاگ جانے والے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: ایک سفرمیں ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ تھے کہ ایک اونٹ بھاگ نکلا ۔ ایک آدمی نے اس پر تیر چلا دیا ۔نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ان (مویشیوں )میں کچھ بھاگ نکلنے والے ہوتے ہیں جس طرح جنگلی جانور (انسان سے دور ) بھاگتے ہیں ، لہذا ان میں سے جو تم پر غالب آجائے ( قابو میں نہ آئے ) اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو ۔‘‘
تشریح :
1۔بھاگنے سے مراد مالک سے چھوٹ کر بھاگ جانا ہےکہ اس پر قابو پانا مشکل ہو۔
2۔بھاگے ہوئے بے قابو جانور کو دور سے تیر یا نیزہ وغیرہ(تکبیر کہہ کر)مارا جائے تو اس کا حکم شکار ہوجا تا ہے،یعنی اگر اس تک لوگوں کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ ذبیحہ کے حکم میں ہے۔اور اگر لوگوں کے پہنچنے تک زندہ ہوتو باقاعدہ تکبیر پڑھ کر ذبح یا نحر کیا جائے۔
1۔بھاگنے سے مراد مالک سے چھوٹ کر بھاگ جانا ہےکہ اس پر قابو پانا مشکل ہو۔
2۔بھاگے ہوئے بے قابو جانور کو دور سے تیر یا نیزہ وغیرہ(تکبیر کہہ کر)مارا جائے تو اس کا حکم شکار ہوجا تا ہے،یعنی اگر اس تک لوگوں کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ ذبیحہ کے حکم میں ہے۔اور اگر لوگوں کے پہنچنے تک زندہ ہوتو باقاعدہ تکبیر پڑھ کر ذبح یا نحر کیا جائے۔