Book - حدیث 3165

كِتَابُ الذَّبَائِحِ بَابُ الْعَقِيقَةِ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ، وَيُسَمَّى»

ترجمہ Book - حدیث 3165

کتاب: ذبیحہ سے متعلق احکام ومسائل باب: عقیقہ کا بیان حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے ،نبی ﷺ نےفرمایا: ہرلڑکا اپنے عقیقے کے بدلےگروی ہے ۔ ساتویں دن اس کی طرف سے (عقیقے کاجانور )ذبح کیا جائے اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں اور اسکا نام رکھا جائے ۔‘‘
تشریح : 1۔۔ گروی رکھنے کامطلب یہ ہے کہ جس طرح گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے'اسی طرح بچے سے پوری طرح برکت اور فائدے کا حصول اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا عقیقہ کردیا گیا ہو۔ 2۔عقیقہ ساتویں دن کیا جاتا ہے۔اگر ساتویں دن ممکن نہ ہوتو چودھویں یا اکیسویں دن بھی کیا جاسکتا ہے۔سنن بیہیقی کی ایک روایت میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔دیکھیے:(السنن الكبرٰي للبهيقي ’الضحايه باب ما جاءفي وقت العقيقه:٩/٣-٣) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ایک فتوے سے ہوتی ہے۔(مستدرك الحاكم ’الذباح ’حديث :٧٥٩٥) غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی ؒ نےاس کو صحیح الجامع الصغیر میں درج کیا ہے'اس لیے مجبوری کی صورت میں اس مطابق عمل کیا جاسکتا ہے'تاہم افضل یہی ہے کہ ساتوین دن عقیقہ کیا جائے۔ 3۔بچے کے سر کے بال مونڈ کران کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنی چاہیے'یا اتنی چاندی کی قیمت صدقہ کردی جائے۔جامع الترمذی میں ایک حدیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت کے موقع پر حکم دیا تھا کہ ان کے سر کے بال اتار کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کریں۔(جامع الترمذي الاضاحي’باب العقيقه بشاة’ حديث :١٥١٩) اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن متعدداسناد سے روایت کی وجہ سے اسے حسن (قابل اعتماد)قراردیا گیا ہے۔(دیکھیےارواء الغلیل:4/402/406) 4۔نام ساتویں دن رکھنا چاہیے'تاہم اس سے پہلے بھی رکھا جاسکتا ہے۔رسول اللہ ﷺنے بعض بچوں کا نام پہلے دن ہی تجویز فرمایاہے۔حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 'انھوں نے فرمایا: میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے لیکر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا'اور کھجور کی گھٹی دی ۔(صحيح البخاري ’العقيقه’باب تسمية المولود غداة يولد لمن لم يعق عنه’وتحنيكه’حديث:٥٤٦٧’وصحيح مسلم’الآداب ’باب استحباب تحنيك المولود عنه ولادته۔۔۔۔۔۔وجواز تسمية يوم ولادته۔۔۔۔’حديث :٢١٤٤) ظاہر ہے گھٹی پہلے دن ہی دی جاتی ہے۔ 1۔۔ گروی رکھنے کامطلب یہ ہے کہ جس طرح گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے'اسی طرح بچے سے پوری طرح برکت اور فائدے کا حصول اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا عقیقہ کردیا گیا ہو۔ 2۔عقیقہ ساتویں دن کیا جاتا ہے۔اگر ساتویں دن ممکن نہ ہوتو چودھویں یا اکیسویں دن بھی کیا جاسکتا ہے۔سنن بیہیقی کی ایک روایت میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔دیکھیے:(السنن الكبرٰي للبهيقي ’الضحايه باب ما جاءفي وقت العقيقه:٩/٣-٣) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ایک فتوے سے ہوتی ہے۔(مستدرك الحاكم ’الذباح ’حديث :٧٥٩٥) غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی ؒ نےاس کو صحیح الجامع الصغیر میں درج کیا ہے'اس لیے مجبوری کی صورت میں اس مطابق عمل کیا جاسکتا ہے'تاہم افضل یہی ہے کہ ساتوین دن عقیقہ کیا جائے۔ 3۔بچے کے سر کے بال مونڈ کران کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنی چاہیے'یا اتنی چاندی کی قیمت صدقہ کردی جائے۔جامع الترمذی میں ایک حدیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت کے موقع پر حکم دیا تھا کہ ان کے سر کے بال اتار کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کریں۔(جامع الترمذي الاضاحي’باب العقيقه بشاة’ حديث :١٥١٩) اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن متعدداسناد سے روایت کی وجہ سے اسے حسن (قابل اعتماد)قراردیا گیا ہے۔(دیکھیےارواء الغلیل:4/402/406) 4۔نام ساتویں دن رکھنا چاہیے'تاہم اس سے پہلے بھی رکھا جاسکتا ہے۔رسول اللہ ﷺنے بعض بچوں کا نام پہلے دن ہی تجویز فرمایاہے۔حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 'انھوں نے فرمایا: میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے لیکر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا'اور کھجور کی گھٹی دی ۔(صحيح البخاري ’العقيقه’باب تسمية المولود غداة يولد لمن لم يعق عنه’وتحنيكه’حديث:٥٤٦٧’وصحيح مسلم’الآداب ’باب استحباب تحنيك المولود عنه ولادته۔۔۔۔۔۔وجواز تسمية يوم ولادته۔۔۔۔’حديث :٢١٤٤) ظاہر ہے گھٹی پہلے دن ہی دی جاتی ہے۔