Book - حدیث 3140

كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ بَابُ مَا تُجْزِئُ مِنَ الْأَضَاحِيِّ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَعَزَّتِ الْغَنَمُ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ الْجَذَعَ يُوفِي، مِمَّا تُوفِي مِنْهُ الثَّنِيَّةُ»

ترجمہ Book - حدیث 3140

کتاب: قربانی سے متعلق احکام ومسائل باب: کس عمر کے جانور کی قربانی درست ہے؟ حضرت عاصم بن کلیب ؓ نے اپنے والد (حضرت کلیب بن شہاب ؓ) سے روایت کی ،انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ کے ایک صحابی کےساتھ تھے جن کانام حضرت مجاشع (بن مسعود )تھا جو کہ قبیلہ بنو سلیم میں سے تھے ۔(قربانیکے لیے ) بکریاں (تقسیم کی گئیں تو ) کم پڑ گئیں ،چنانچہ انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’بلاشبہ جذعہ (ایک سالہ )ثنیہ(دو دانتے )کی جگہ کفایت کر جاتاہے ۔‘‘
تشریح : 1۔ثنيه يا مسنه اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دو نئے دانت آجائیں۔ 2۔جذعه اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت نہ ٹوٹے ہوں ۔ 3۔مذکورہ بالا حدیث اور ام بلال ؒسے مروی حدیث: بھیڑ کے جذعے کی قربانی کرواس لیے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔(مسند احمد:٢/٣٦٨)سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جذعه قربانی کیا جاسکتا ہےالبتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جوکہصحیح مسلم (1963) میں ہے،کی رو سے مسنه (دودانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ اس کی بابت فتح الباری میں لکھتے ہیں:امام نووی ؒ نے جمہور علماء سے نقل کیا ہےکہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پر محمول کیا ہے۔دیکھیے :(فتح الباري:١/٢-)نیز راجح قول کے مطابق جذعه صرف بھیڑ میں جائز ہےیعنی دنبہاور چھترادیگر جانوروں کے اس عمر کے بچوں کی قربانی کرنا جائز نہیں۔اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اگلی حدیث کے فوائد میں بحث دیکھی جاسکتی ہے۔ 4۔شیخ زہیت شاویش لکھتے ہیں:بھیڑ،بکری۔اور گائے میں مسنہ وہ ہوتا ہے جو تیسرے سال میں لگ جائےاور اونٹوں میں جو چھٹے سال میں لگ جائے۔بھیڑ کے جذعے کے متعلق علمائے لغت اور اکثر علماءکا مشہور اور راجح قول یہ ہے کہاس سے مراد وہ (بھیڑ کا بچہ) ہے جو پورے سال کا ہوجائے۔امام شوکانی امام نوویحافظابن حجر ؒ اور دیگر علماء نے یہی فرمایا ہے۔(حاشیہ ضعیف سنن ابن ماجہ) لیکن یہ بات حتمی نہیں الگ الگ ملکوں کی الگ الگ آب وہوا کی وجہ سے اس میں فرق بھی ہوسکتا ہےاس لیے اصل اعتبار بکرےگائے بیلاور اونٹ میں دو دانتا ہونا ہے اور دنبہ چھترے کا ایک سالہ ہونا۔ 1۔ثنيه يا مسنه اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دو نئے دانت آجائیں۔ 2۔جذعه اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت نہ ٹوٹے ہوں ۔ 3۔مذکورہ بالا حدیث اور ام بلال ؒسے مروی حدیث: بھیڑ کے جذعے کی قربانی کرواس لیے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔(مسند احمد:٢/٣٦٨)سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جذعه قربانی کیا جاسکتا ہےالبتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت جوکہصحیح مسلم (1963) میں ہے،کی رو سے مسنه (دودانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ اس کی بابت فتح الباری میں لکھتے ہیں:امام نووی ؒ نے جمہور علماء سے نقل کیا ہےکہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پر محمول کیا ہے۔دیکھیے :(فتح الباري:١/٢-)نیز راجح قول کے مطابق جذعه صرف بھیڑ میں جائز ہےیعنی دنبہاور چھترادیگر جانوروں کے اس عمر کے بچوں کی قربانی کرنا جائز نہیں۔اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اگلی حدیث کے فوائد میں بحث دیکھی جاسکتی ہے۔ 4۔شیخ زہیت شاویش لکھتے ہیں:بھیڑ،بکری۔اور گائے میں مسنہ وہ ہوتا ہے جو تیسرے سال میں لگ جائےاور اونٹوں میں جو چھٹے سال میں لگ جائے۔بھیڑ کے جذعے کے متعلق علمائے لغت اور اکثر علماءکا مشہور اور راجح قول یہ ہے کہاس سے مراد وہ (بھیڑ کا بچہ) ہے جو پورے سال کا ہوجائے۔امام شوکانی امام نوویحافظابن حجر ؒ اور دیگر علماء نے یہی فرمایا ہے۔(حاشیہ ضعیف سنن ابن ماجہ) لیکن یہ بات حتمی نہیں الگ الگ ملکوں کی الگ الگ آب وہوا کی وجہ سے اس میں فرق بھی ہوسکتا ہےاس لیے اصل اعتبار بکرےگائے بیلاور اونٹ میں دو دانتا ہونا ہے اور دنبہ چھترے کا ایک سالہ ہونا۔