Book - حدیث 3125

كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ بَابُ الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو رَمْلَةَ، عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: كُنَّا وَقُوفًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ؟ هِيَ الَّتِي يُسَمِّيهَا النَّاسُ الرَّجَبِيَّةَ»

ترجمہ Book - حدیث 3125

کتاب: قربانی سے متعلق احکام ومسائل باب: قربانی واجب ہے یا نہیں؟ حضرت مخنف بن سلیم ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: ہم عرفہ میں نبی ﷺ کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے ۔ آپ نے فرمایا:’’لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی اور عتیرہ (واجب ) ہے ۔‘‘ کیا تمہیں معلوم ہے عتیرہ کیا ہے وہی جسے لوگ رجبیہ کہتے ہیں ۔
تشریح : 1۔کتاب الذبائح کے دوسرے باب میں وارد حدیث میں عتیرہ کی مشروعیت کی نفی کی گئی ہے۔بعض علماء نے ان دونوں کو اس انداز سے جمع کیا ہے کہ عید کی قربانی واجب ہے۔اور رجب کی قربانی نفلیعنی (لاعتيرة) کوئی عتیرہ نہیں کا مطلب یہ ہے کہ عتیرہ واجب نہیں اور زیر مطالعہ حدیث کا مطلب ہوگا کہ عتیرہ مشروع ہے۔ بہت سے علماء نے عتیرہ کو منسوخ قراردیا ہے۔ 2۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ سنن النسائي اور سنن ابي داؤد کی احادیث اس سے کفایت کرتی ہیں۔ دیکھیے تحقیق و تخریج حدیث ہذا۔علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے حسن قراردیا ہےلہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالامام احمد :٢٩/٤١٩/٤٢- و صحيح سنن ابي داؤد (مفصل) للالبانيحديث :٢٢٨٧) 1۔کتاب الذبائح کے دوسرے باب میں وارد حدیث میں عتیرہ کی مشروعیت کی نفی کی گئی ہے۔بعض علماء نے ان دونوں کو اس انداز سے جمع کیا ہے کہ عید کی قربانی واجب ہے۔اور رجب کی قربانی نفلیعنی (لاعتيرة) کوئی عتیرہ نہیں کا مطلب یہ ہے کہ عتیرہ واجب نہیں اور زیر مطالعہ حدیث کا مطلب ہوگا کہ عتیرہ مشروع ہے۔ بہت سے علماء نے عتیرہ کو منسوخ قراردیا ہے۔ 2۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ سنن النسائي اور سنن ابي داؤد کی احادیث اس سے کفایت کرتی ہیں۔ دیکھیے تحقیق و تخریج حدیث ہذا۔علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے حسن قراردیا ہےلہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالامام احمد :٢٩/٤١٩/٤٢- و صحيح سنن ابي داؤد (مفصل) للالبانيحديث :٢٢٨٧)