كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ بَابُ أَضَاحِيِّ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ، سَمِينَيْنِ، أَقْرَنَيْنِ، أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ، لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ، بِالتَّوْحِيدِ، وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
کتاب: قربانی سے متعلق احکام ومسائل
باب: اللہ کے رسول ﷺ کی قربانی کا بیان
حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے بڑے ،موٹے تازے ،سینگوں والے چتکبرے او رخصی مینڈھے خریدتے ۔ ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے ،یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی گواہی دیتا ہو اور نبی ﷺ کے پیغام پہچانے (اور رسول ہونے ) کی گواہی دیتا ہو ۔اور دوسرا محمد ﷺ کی طرف سے ، اور محمد ﷺ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے ۔
تشریح :
1۔قربانی کے جانور عمدہ ہونے چاہییں۔
2۔جانور ظاہری شکل وصورت میں بھی اچھا ہونا چاہیے۔
3۔خصی جانور کی قربانی درست ہے اسے عیب نہ شمار کیا جاتا۔
4۔گھر کے تمام افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔
5۔کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔
6۔میت کی طرف سے قربانی جرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔نبی اکرم ﷺ کے عمومی استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپکی اقتداء جائز نہیں۔/دیکھیے:(ارواء الغليل:٤/٣٥٤) علاوہ ازیں خیر القرون(صحابہ وتابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف صدقہ کرنا جائز ہےیعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار ناممکم نہیں ہے۔واللہ اعلم۔
1۔قربانی کے جانور عمدہ ہونے چاہییں۔
2۔جانور ظاہری شکل وصورت میں بھی اچھا ہونا چاہیے۔
3۔خصی جانور کی قربانی درست ہے اسے عیب نہ شمار کیا جاتا۔
4۔گھر کے تمام افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔
5۔کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔
6۔میت کی طرف سے قربانی جرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔نبی اکرم ﷺ کے عمومی استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپکی اقتداء جائز نہیں۔/دیکھیے:(ارواء الغليل:٤/٣٥٤) علاوہ ازیں خیر القرون(صحابہ وتابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف صدقہ کرنا جائز ہےیعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار ناممکم نہیں ہے۔واللہ اعلم۔