Book - حدیث 3116

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ مَالِ الْكَعْبَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: بَعَثَ رَجُلٌ مَعِيَ بِدَرَاهِمَ هَدِيَّةً إِلَى الْبَيْتِ، قَالَ: فَدَخَلْتُ الْبَيْتَ وَشَيْبَةُ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ، فَنَاوَلْتُهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ: أَلَكَ هَذِهِ؟ قُلْتُ: لَا، وَلَوْ كَانَتْ لِي، لَمْ آتِكَ بِهَا، قَالَ: أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ، لَقَدْ جَلَسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَجْلِسَكَ الَّذِي جَلَسْتَ فِيهِ، فَقَالَ: «لَا أَخْرُجُ، حَتَّى أَقْسِمَ مَالَ الْكَعْبَةِ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ» قُلْتُ: مَا أَنْتَ فَاعِلٌ، قَالَ: لَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: وَلِمَ ذَاكَ؟ قُلْتُ: «لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى مَكَانَهُ، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا أَحْوَجُ مِنْكَ إِلَى الْمَالِ، فَلَمْ يُحَرِّكَاهُ، فَقَامَ كَمَا هُوَ، فَخَرَجَ»

ترجمہ Book - حدیث 3116

کتاب: حج وعمرہ کے احکام ومسائل باب: کعبہ کے مال کا بیان حضرت شفیق ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا : ایک شخص نے بیت اللہ کو ہدیہ کرنے کے لیے میرے ہاتھ کچھ درہم بھیجے ۔ میں کعبہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت شیبہ کرسی پر بیٹھے تھے ۔میں نے انہیں وہ درہم دے دیے ۔ انہوں نے کہا : یہ تمہارے ہیں ؟ میں نے کہا :نہیں ، اگر میرے ہوتے تو میں آپ کے پاس نہ لاتا ۔ انہوں نےکہا : تم نے یہ بات کہی ہے ( تو مجھے بھی ایک بات یاد آگئی ) حضرت عمر بن خطاب (ایک دن ) اسی جگہ بیٹھے تھے جہاں تم اب بیٹھے ہو،انہوں نے فرمایا : میں (کعبہ سے )باہر نہیں جاؤں گا جب تک کعبے کامال نکال کر غریب مسلمانوں میں تقسیم نہ کردوں ۔ میں نے کہا : آپ یہ کام نہیں کرسکتے ۔انہوں نے فرمایا : میں یہ کام ضرور کروں گا ۔لیکن تم نے یہ بات کیوں کہی ہے ؟ میں نےکہا : اس لیے کہ نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر نے یہ مال یہاں دیکھا تھا او ران کو اس مال کی آپ سےزیادہ ضرورت تھی ،ان دونوں نے تو اسے ہلایا بھی نہیں ۔ حضرت عمر اسی طرح کھڑے ہوگے اور (کعبے سے ) باہرتشریف لے گئے ۔
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہےلہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگت شواہد کی بناء پر قابل حجت ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(الموسوعة الحديثية مسندالامام احمد:٢٤/١-٢/١-٣وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عوادحديث:٣١١٦) 2۔اسلام سے پہلے لوگ اللہ کی رضا کے لیے کعبے میں سونا چاندی اور نقد رقم بھیجتے تھے۔اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔اس سے کعبہ شریف کے متعلق اخراجات پورے ہوتے تھے اور ضرورت سے زائد مال جمع رہتا تھا(نيل الاوطار:٦/٣٦) 3۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر تیری قوم نئی نئی کفر سے نکلی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتااس کا دروازہ زمین پر بناتااور اس میں حطیم کا حسہ شامل کردیتا۔(صحيح مسلم الحجباب نقض الكعبة وبنائهاحديث:١٣٣٣)اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائےصحیح ہے۔ممکن ہے انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہواس لیے حضرت شیبہ کی رائے کو قبول کرلیا۔ 4۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غریب مسلمانوں کا بہت احساس تھامسلمان حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ 5۔حضرت شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز کی سختی سے مخالفت کیکیونکہ وہ دلیر اور سچے لوگ تھےاور ام المونین تنقید برداشت کرنے والے تھے۔ 6۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔علاوہ ازیں اگر محسوس کرتے کہ ان کی رائے غلط ہے تو فوراً رجوع فرماکر صحیح بات تسلیم کرلیتے تھے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہےلہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگت شواہد کی بناء پر قابل حجت ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(الموسوعة الحديثية مسندالامام احمد:٢٤/١-٢/١-٣وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عوادحديث:٣١١٦) 2۔اسلام سے پہلے لوگ اللہ کی رضا کے لیے کعبے میں سونا چاندی اور نقد رقم بھیجتے تھے۔اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔اس سے کعبہ شریف کے متعلق اخراجات پورے ہوتے تھے اور ضرورت سے زائد مال جمع رہتا تھا(نيل الاوطار:٦/٣٦) 3۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر تیری قوم نئی نئی کفر سے نکلی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتااس کا دروازہ زمین پر بناتااور اس میں حطیم کا حسہ شامل کردیتا۔(صحيح مسلم الحجباب نقض الكعبة وبنائهاحديث:١٣٣٣)اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائےصحیح ہے۔ممکن ہے انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہواس لیے حضرت شیبہ کی رائے کو قبول کرلیا۔ 4۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غریب مسلمانوں کا بہت احساس تھامسلمان حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ 5۔حضرت شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز کی سختی سے مخالفت کیکیونکہ وہ دلیر اور سچے لوگ تھےاور ام المونین تنقید برداشت کرنے والے تھے۔ 6۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔علاوہ ازیں اگر محسوس کرتے کہ ان کی رائے غلط ہے تو فوراً رجوع فرماکر صحیح بات تسلیم کرلیتے تھے۔